وہ جو پردیس رہتے ہیں کبھی سوچا ہے کیسے دن بِتاتے ہیں جو چہروں سے نظر آتے ہیں آسودہ بظاہر پرسکوں لیکن ٹٹولو تو سہی اِن کو کبھی اِن کے دِلوں میں جھانک کر دیکھو غموں کا اک سمندر ہے مزید پڑھیں
وہ جو پردیس رہتے ہیں کبھی سوچا ہے کیسے دن بِتاتے ہیں جو چہروں سے نظر آتے ہیں آسودہ بظاہر پرسکوں لیکن ٹٹولو تو سہی اِن کو کبھی اِن کے دِلوں میں جھانک کر دیکھو غموں کا اک سمندر ہے مزید پڑھیں
مری حرارت مرا خدا ہے جو میرے دل میں اتر رہا ہے کیا کہنے شعاع نور اس نظم کا ہر…