نظم پردیسیوں کے دکھ‎

وہ جو پردیس رہتے ہیں
کبھی سوچا ہے کیسے دن بِتاتے ہیں
جو چہروں سے نظر آتے ہیں آسودہ
بظاہر پرسکوں لیکن
ٹٹولو تو سہی اِن کو
کبھی اِن کے دِلوں میں جھانک کر دیکھو
غموں کا اک سمندر ہے
سمندر جو بظاہر پرسُکوں لیکن
کسی کمزور لمحے میں
فصیلیں توڑ کر دل کی نکل آتا ہے آنکھوں سے
اکیلے پن کی وحشت سے جو دل میں ہول اٹھتے ہیں
تو تنہائی میں روتے ہیں
کسی سے کچھ نہیں کہتے

سنو اہلِ وطن پردیس میں
جب
کوئی تہوار آتا ہے
تو پھر ہم کو
وہ رشتے جن سے نسبت خون کی ہے سب
بہت ہی یاد آتے ہیں
بہت ہم کو رلاتے ہیں
وہ ماں کی مامتا
وہ باپ کی شفقت
محبت سے بھرا لہجہ وہ بہنوں کا
وہ عیدی چھین کر لینا
اٹھانا لاڈ بہنوں کے
گلے ملنا وہ بھائیوں سے
وہ جانا شان سے مل کر نمازِ عید پڑھنے کو
وہ جن کے نام پر دھڑکن مچلتی ہو
اُنہیں آنکھوں ہی آنکھوں میں مُبارک عید کی دینا
وہ پھرنا دوستوں کے سنگ گلیوں میں
جہاں بچن بِتایا تھا جہاں یادیں کمائی تھیں
وہ سب یادیں وہ سب رستے
وہ سب چہرے وہ سب رشتے
وہ سب اپنے
نمی بن کر اتر آتے ہیں آنکھوں میں
کسی سے کچھ نہیں کہتے
فقط بس سسکیوں میں عید ہوتی ہے
مگر کچھ کر نہیں سکتے

سنو اہلِ وطن پردیس میں
اُس وقت دل پر جو گزرتی ہے
بیاں بھی ہو نہیں سکتا
اچانک جب خبر آئے تمہاری منتظر آنکھیں
ابھی ہیں موند ہونے کو
ذرا جلدی سے آنا تم
کہیں اب دیر نہ کرنا
تو تب پھر درد کی ٹیسیں جو دل کا حال کرتی ہیں
سمجھ میں کچھ نہیں آتا
جو سینے میں دھڑکتا ہے
اچھل کر حلق میں آ کر دھڑکتا ہے
خدایا خیر ہو سب کی
مگر پردیس میں مجبور بے چارے
پہنچتے ہیں جنازوں پر
کبھی وہ بھی نہیں ملتے
کلیجہ منہ کو آتا ہے

تمہیں اب کیا بتاؤں میں
یہ جو خوش باش لگتے ہیں
خلاء ہے ذات میں کتنا
کوئی نہ جان پائے گا
مگر زندہ بھی رہنا ہے
تو پھر یوں غم بھلاتے ہیں
بہت سے ٹوٹے دل مل کر
تو ایسی محفلیں آباد کرتے ہیں
اداسی کے سمندر سے نکل آتے ہیں پل بھر کو
بہت ہی عام باتوں پر
بڑے زوروں سے ہنستے مسکراتے ہیں
وہ جو پردیس رہتے ہیں
وہ ایسے دن بِتاتے ہیں.

ساؔنول عباسی

اپنا تبصرہ لکھیں