اے پی پارٹی نے الیکشن میں اپنی خاتون پارلیمنٹ ممبر آنے مارت کو کھو دیا ہے۔جو کہ شمالی علاقہ کی نمائندگی کرتی تھیں اور وزیر اعظم کی مشیر خاص تھیں۔اس کے ساتھ ہی نارویجن اخبار داگ بلادے کے مطابق ایک اور خاتون
اس کیٹا گری میں 6990 خبریں موجود ہیں
بیگم فردوس عاشق نے اپنے دورے میں نارویجن وزیر اطلاعات سے بھی ملاقات کی جس میں دو طرفہ منصوبوں کے تحت پاکستان کو مزید ٹیکنالوجی فراہم کرنے پر زور دیا گیا۔ تاہم بیگم فردوس نے واضع کیا کہ گذشتہ کئی برسوں سے تشدد اور تخریب
لیکن افسوس صد افسوس یہ صرف میری خوش فہمی اس وقت تک برقرار رہی جب تک قائد زندہ رہے وہ مجھے مضبوط و مستحکم کرنے پر کمربستہ رہے۔ یہ میری بد قسمتی کہ میرے محسن کی زندگی نے کچھ زیادہ وفا نہ کی اور مجھے تنہا چھوڑ گئے۔ بس پھر تو کیا بتائوں کہ مجھ پر کیا گیا گزری ،بجائے یہ کہ میری بنیادوںکو مضبوط سے مضبوط تر
یہ ایوارڈ کمیٹی ہر سال نمایاں کارکردگی دکھانے والے پاکستانیوں کو دیتی ہے۔صغراء بی بی اوسلو پولیس کے محکمے میں کام کرتی ہیں۔جبکہ ولید احمد نے
اس کی کئی وجوہات ہیں۔سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ بیشتر پاکستانی امیدواروں کا پاکستانی کمیونٹی سے رابطہ ہی کم ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ پاکستانی ووٹرز کے ووٹ تو پاکستانی امیدواروں کو ہی دیے جانے چاہیں۔لیکن شائید انہیں ایک دوسرے پر اعتبار ہی نہیں۔کیونکہ ایک تو پہلے سے موجود پاکستانی سیاستدانوںکا پاکستانی مسائل پر سرد رویہ اور
مصنف کو اپنی اہلیہ سے ایسی محبت کہ کتاب میں جہاں ان کے پہلی بار یرقان میں مبتلا ہونے کا احوال شامل ہے وہاں ان سے فون پر ہونے والی آخری گفتگو بھی شامل کی گئی ہے، عالم بالا میں اپنی اہلیہ کی ممکنہ پذیرائی کا منظر بھی بیان کیا گیا ہے!
۔انہوں نے دو سال تک ناروے کی روزگار مہیاء کرنے کی کمپنی میں کام کیا ۔غیر ملکیوں کو جاب دلوانے کے لیے وہ ایسے اداروں کا انتخاب کرتی تھیں جن میں غیر ملکی نہیں تھے۔وہ وہاں قابل غیر ملکیوں کو جاب دلواتی تھیں۔انکے اس پراجیکٹ کا مقصد یہ تھا کہ
جامی صاحب اپنے جابجا و برجستہ فقروں سے محفل کو دلچسپ بنائے ہوئے تھے، مذکورہ عنوان پر احباب نے دو ایک تیر پھینکے، ایک خاتون کی آواز آئی:
” بھئی اس عنوان پر ایدھی کا سرد خانہ یاد آگیا”
لوگوں نے دیکھا کہ پل کے نیچے کھڑے ایک بزرگ گرنے والے بموں کو پکڑ پکڑ کر ایک طرف رکھ رہے تھے۔جب کہ پل اسی شان سے اپنی جگہ پر کھڑا دشمنوں کا منہ چڑا رہا تھا۔دشمن نے پاکستان کی سرحدوں پر کئی محاذ کھولے لیکن اپنے ہر محاذ پر اسے منہ کی کھانی پڑی۔اور وہ بے بسی سے کھسیانی بلی کھمبا نو چے کے مصداق اپنی بہادری اور کامیابی
راقم السطور اپنی منزل پر پہنچا تو پانچ بجے کا وقت تھا اور تقریبا تمام شرکاء تشریف لا چکے تھے ۔ کمرہ کتابوں سے گھرا ہوا، کمر ٹکانے کو بھی کتابیں، پیش منظر میں بھی کتابیں اور پس منظر میں بھی کتابیں ہی کتابیں۔ جامی صاحب سے عرض کیا کہ کاغذات کو سہارا دینے کے لیے کچھ عنایت کیجیے تو ایک غیرمعمولی حجم کی کتاب ہی پیش کی گئی۔