اپنے مقدمے کی سماعت کی فلمبندی کی اجازت

filmmakingمنگل کے روز سپریم کورٹ میں ایک اہم فیصلہ کیا جائے گا۔اس کا تعلق پولیس کو یہ حق دینے سے ہے کہ آیا وہ عدالت میں اپنے پیش کردہ مقدمہ کی سماعت کی فوٹیج دیکھ سکتی ہے یا نہیں۔یہ ریکارڈنگ فلمساز امتیاز الریک Ulrik Imtiaz Rolfsen نے بنائی ہے جو کہ وہ آٹھ جون کو پولیس اس کے دروازے پر آئی۔امتیاز نے اس کی فلمبندی کر لی ۔اس فلم میں جو مواد ہے وہ ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا۔
کیس شروع ہونے سے پہلے امتیاز نے نارویجن خبر رساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں خوش ہوں مگر مجھے عدالت پر اعتبار ہے۔
عدالت نے پولیس کو مقدمہ کی فوٹیج دیکھنے کی اجازت دے دی ۔مقدمہ کی سماعت ہائی کورٹ میں ہو گی۔فلمساز کے مطابق یہ اچھی بات ہے کہ ہائی کورٹ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہا ہے۔
یہ کیس اسلیے اہم ہے کہ یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کسی معاملے کو جاننے کے ذرائع کیا ہیں۔صحافیوں کے لیے ایک قانون ہے جس کے تحت یہ بات اہم ہ کہ انہیں معلومات اور خبریں کس ذرائع سے حاصل ہو رہی ہیں۔پبلک پراسکیوٹر جان فریڈرک کے مطابق عدالت کو معلومات کے ذرائع کو تحفظ دینا چاہیے ۔Jan Fredrik Glent. جان فریڈرک منظم اور دیگر جرائم کی قومی اٹھارٹی کے محکمے میں کام کرتے ہیں۔
ناروے ایڈیٹرز ایسوسیا یشن عدالت کے فیصلے کے لیے فکر مند ہے کہ آیا عدالت پولیس کو اجازت دیتی ہے کہ نہیں۔اگر ذرائع معلومات غیر یقینی ہوں تو انہیں گمنام بھی رکھا جا سکتا ہے۔خبر رساں ایجنسی سے جنرل سیکرٹری آرنے جینسن Arne Jensen نے کہا کہ اس اقدام سے لوگوں میں اہم واقعات کے ساتھ منظر عام پر آنے کی صلاحیت میں کمی آ جائے گی۔
NTB/UFN

اپنا تبصرہ لکھیں