جو اُڑاتے تھے ہنسی عشق کے بیماروں کی

غزل
 جستجو اُن کو بہاروں کی ہے ویرانوں میں 
ڈھونڈھتے پھرتے ہیں اپنوں کو وہ بے گانوں میں جو اُڑاتے تھے ہنسی عشق کے بیماروں کی
خود وہی آج ہیں شامل اُنہی دیوانوں میں 
 کچھ نہ کچھ کھوٹ نظر آئی دلوں میں سب کے 
ڈھونڈنے نکلے فرشتوں کو جو انسانوں میں کس لیے شمع پہ وہ جان گنوائیں ناحق 
بحث ہوتی ہے یہی آج کے پروانوں میں 

بے حیائی کے، فسادوں کے، ستم کے قصیّ
روز ہی دیکھئے اخباروں کے عنوانوں میں 

اپنے احباب پہ بے حد ہی یقیں ہے جن کو 
لوگ کرتے ہیں شمار ان کو تو نادانوں میں 

پوچھ موناؔ سے نشہ کیسا ہے ہر قطرے میں
جو بھری ہے مئے غم زیست کے پیمانوں میں 

Elizabeth Kurian ‘Mona’
اپنا تبصرہ لکھیں