دوسرا رخسار بھی پیش کردو

برطانوی جریدے’’دی گارجین‘‘کی تازہ اشاعت میں ممتازدانشورصحافی عبدالحق بکرکی ایک رپورٹ ’’برطانوی سیاہ فام نوجوان نسل میں اسلام کی کشش‘‘کے عنوان سے شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے تحریرکیاہے:

گزشتہ ماہ مسیحیوں نے اکٹھے ہوکربرطانیہ میں ایک سیمینارمنعقدکیاجس کامقصدیہ تھاکہ وہ طریقے دریافت کئے جائیں جس سے برطانوی سیاہ فام نوجوان نسل میں اسلام کی کشش اورانقلابیت کوجڑسے اکھاڑپھینکاجائے۔حیرت انگیزطورپراس سیمینارمیں بیشترسیاہ فام مسلمانوں کوبھی مدعو کیا گیا اورمسلمانوں نے بھی باوجوداس متنازع موضوع کے اس میں شرکت کی۔بہرحال اس سیمینار کے دوران میں دونوں مذاہب کے رہنماؤں نے ان وجوہ کے متعلق بحث کی کہ’’ کیوں سیاہ فام نوجوانوں کی ایک بڑی تعدادمسیحیت کے بجائے اسلام اختیارکررہی ہے؟‘‘۔بی بی سی ریڈیوکی ایک رپورٹ کے مطابق 9سیاہ فام نوجوانوں میں ایک (کی شرح سے)اسلام قبول کررہاہے۔
ایک سیاہ فام نوجوان نے اس پروگرام میں اپنy ذاتی مشاہدات بتاتے ہوئے کہا ’’اپنے والدکے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے میری پرورش بھی رومن کیتھولک کے طورپرہوئی اور میں بچپن میں ہراتوارکومذہبی اجتماع میں شرکت کیاکرتا۔میں نے ایک رومن کیتھولک سیکنڈری سکول میں تعلیم بھی حاصل کی ۔مجھے اس وقت شدیدصدمہ پہنچاجب میں نے دیکھاکہ ایک سفیدفام اکثریت کی جماعت میں،میں تنہاسیاہ فام ہوں،بہرحال سکول کامذہبی رحجان میرے شہری اورگلی کوچوں کے پس منظرسے بہت مختلف تھا۔میرے سابقہ سکول کی بہ نسبت یہاں کے اساتذہ اورطلبہ خداکے (وجودِ ہستی)کے متعلق زیادہ سنجیدہ نہ تھے۔مذہب کی بنیادپرکسی بھی طالب علم کواجنبی نہیں سمجھاجاتاتھا،یوں میں اپنی مذہبی تعلیم میں کامیابی حاصل کرتاچلاگیااوراولیول کے آخری امتحان میں کامیاب توہوگیالیکن مجھے ایسی کوئی خوشی اس لئے نہ ہوئی کہ میرادل اس پرکچھ ایسا مطمئن نہ تھا‘‘۔
ایک اورعیسائی مشنری سکول کے طالب علم نے اپنے تجربات اس طرح بیان کئے کہ’’اسباق کے دوران میں جس قدیم تہذیب کے متعلق پڑھتے اورسیکھتے اسی قدرزیادہ ہم مختلف مذہبی نظریات خاص طورپرمسیحیت کے متعلق سوالات کرتے،تثلیث کے تصورکے متعلق بہت سے سوالات کئے جاتے اورہم میں سے بہت سے اس تصورکے متعلق آپس میں بحث مباحثہ بھی کرتے لیکن ہم میں سے کوئی بھی اس کی منطقی وجہ تلاش نہ کرسکا۔مذہب کے تصورات پڑھانے والے اساتذہ اس موضوع پرہماری طرف سے تابڑتوڑسوالات کے باعث برہم ہوجاتے اورکسی مقامی پادری کوان سوالات کے جوابات دینے کیلئے بلا لیتے۔ مسیحی مذہب کے اس بنیادی عقیدے کے لحاظ سے پادری کی طرف سے کی گئی وضاحت کے باعث ہم بہت ہی کم مطمئن ہوتے۔مجھے یادہے کہ ایک بارجب ہم انجیل کے متعلق سبق پڑھ رہے تھے تومیں نے سوال کیاکہ ہم بطورمسیحی اس طرح کیوں نہیں ماتھاٹیکتے جس طرح یسوع مسیح ماتھاٹیکتے تھے ؟یسوع کی عبادت اورہمارے مسیحی بھائیوں کی عبادت میں کوئی مشابہت نظرنہیں آتی۔بہرحال مسلمانوں کی نمازبہت حدتک یسوع مسیح کے ماتھاٹیکنے کے مشابہ ہے۔
ایک اورنومسلم سیاہ فام نوجوان نے سیمینارکے شرکاء کوبتایاکہ سکول چھوڑنے کے بعدسکول کے بیشتردوستوں سے میرارابطہ منقطع ہوگیا۔میں نے مسیحیت کے بہت سے پہلوؤں سے بھی کنارہ کشی کرلی یعنی بہت سے پہلوترک کردیئے اوران کے بجائے میں اپنے مقامی دوستوں اورمعاشرے کے رنگ ڈھنگ میں رچ بس گیا۔ہم جن اخلاقی اقدار اور اعتقادات کواپنے لئے مناسب سمجھتے ان کے مطابق ہی اپنامذہب تخلیق کرلیتے۔بالآخرمجھے اسلام کے بارے میں پڑھنے کاموقع ملاتومجھے یوں محسوس ہواکہ میرے اندرجوتشنگی موجود تھی اس کاخاطر خواہ جواب مجھے اسلام کے مطالعہ سے مل گیااوراس طرح مجھے اسلام قبول کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی‘‘۔
ایک اورنوجوان نے سیمینار میں برملااس بات کااعتراف کیاکہ ’’جس قسم کاانکسارمسیحیت کی تبلیغ میں پیش کیاجاتاہے وہ ان سیاہ فام نوجوانوں کیلئے سراسراجنبی ہے جواکثربرطانیہ کے متشدد اورمشکل ماحول میں پرورش پاتے ہیں’’دوسرارخساربھی پیش کردو‘‘سے مرادیہ ہے کہ استحصال اورظلم آپ کامقدربن جائے جبکہ عزت نفس کے نظریے کی اپنائیت انسان میں وقارپیداکرتی ہے۔میں نے دین اسلام کے بنیادی عقیدے توحید(اللہ ایک ہے)سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔اس سے مرادیہ ہے کہ اللہ کاکوئی شریک نہیں۔یہ عقیدہ ایک معقول عقیدہ ہے اوراس کی تفہیم بھی آسان ہے۔ اسلام پرمیرایقین اس وقت مزیدمستحکم ہوگیاجب میں نے یہ پڑھاکہ اسلام یہودیوں اورمسیحیوں کے پیغمبروں کابھی بے حد احترام کرتاہے۔ میر ااپنا مذہب جس طرح قرآن مقدس کایہ فرمان ہے ،ان ابتدائی مذاہب کی فطری وحتمی ترقی پسندشکل اورمکمل لائحہ حیات ہے۔
اس کے علاوہ میرے نئے مذہب میں مذہبی رہنمائی بھی موجودتھی جس میں روحانی اورفکری ضابطہ اخلاق بھی موجود تھا۔ میلکم ایکس جیسے مثالی مسلمانوں نے مجھ میں اسلام کے تصور کو مزید راسخ کیاجس کے مطابق انسان کی اصلی طاقت اس کی نیکی ہے۔اس موضوع پرمیرے ذاتی تجربات نے میری بہت مددکی۔رچرڈ ریڈی نے جوبذاتِ خودمسیحی ہے اورانہوں نے اپنی بہت مقبول اوربرطانیہ میں ریکارڈ فروخت ہونے والی کتاب ’’بلیک مسلمز ان برٹین‘‘ (Black Muslims in Britain)میں برطانوی سیاہ فام نوجوان نسل کی اسلام کی طرف رغبت کے ضمن میں تحقیق کی اوراس کاخلاصہ یہ بتایاکہ اس میں تمام انسان برابرہیں،کسی گورے کوکالے پریاکسی بھی اوررنگ کوکسی دوسری رنگ کے انسان پرکوئی فوقیت نہیں اور اسلام نے عزت کاحقداراسے ٹھہرایاہے جوصرف اللہ سے ڈرتاہواوراللہ سے ڈرنے کامطلب صرف یہ ہے کہ اس کی مخلوق سے محبت کی جائے اورہرقسم کی برائی اورظلم سے اجتناب کرتے ہوئے ایمانداری،صداقت کے ساتھ اللہ کی مخلوق سے محبت کی جائے ۔میری اپنی تحقیقات نے مجھے یہی بتایاکہ جوسیاہ فام برطانوی نوجوان اسلام کی طرف راغب ہوئے ، ان کے قبول اسلام کی بھی کم وبیش یہی وجوہ تھیں ‘‘۔
اس سیمینار کاانعقادتواسلام کے پیغام کاراستہ روکنے کیلئے تھالیکن شرکاء کوتویہ پیغام ملاکہ اسلام ایک طرزِحیات اوراخوت کاعملی مظاہرہ ہے جسے دیکھ کرپچاس فیصدسیاہ فام نوجوان اسلام کی طرف متوجہ ہوئے۔مزیدبرآں ۰۳فیصداور۰۱فیصدسیاہ فام نوجوان اسلام کے عقیدہ’’توحید‘‘سے متاثرہوکراوریہ دیکھ کرمسلمان ہوئے کہ یہ دین فطری طورپرقابل فہم اورعملی ہے اوراس میں کوئی تضادموجودنہیں۔
لندن یونیورسٹی کے ایک سفیدفام استادنے بڑی ایمانداری سے یہ تسلیم کیاکہ جب میں نے اس امر کے بارے میں تحقیق کی کیااسلام کی طرف راغب ہونے والے یہ نوجوان کہیں تشددکی طرف متوجہ تونہیں تومجھے یہ معلوم کرکے اطمینان ہواکہ جس سیاہ فام نوجوانوں نے اسلام قبول کیا وہ تشددکی طرف متوجہ ہونے کی بجائے اس کے سدباب کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔صرف برطانوی سیاہ فام نومسلم ہی نہیں بلکہ دنیامیں بہت سے نومسلم اس برتراحساس کی توثیق کریں گے جوان میں اسلام نے روحانی اورذہنی طورپرپیدا کیاہے۔اسلام کے باعث ان میں ایک ایسی قوت پیداہوجاتی ہے جس کے ذریعے سے یہ نومسلم ،سماجی،ثقافتی اوراکثرمعاشی مشکلات کاسامناکرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔بہرحال ’’دوسرا رخسار پیش کردو‘‘کانظریہ کسی بھی طرح قابل قبول اورمعقول نہیں۔
اس سیمینارکاانعقادکرنے والے یقینااس بات سے آگاہ نہیں تھے کہ انہوں نے توبرطانوی سیاہ فام نوجوان نسل میں اسلام کی کشش اورانقلابیت کوجڑسے اکھاڑپھینکنے کی تدابیرتلاش کرنے کیلئے اس قدر شب وروزمحنت کی تھی وہ اس قدربری طرح ناکام ہوں گے لیکن مجھے رب کریم کایہ فرمان یادآرہاہے :
وَمَکَرْواَ ومَکَرَ اللّہْ ﷺَ واللّہ خَیْرْ الْمَاکِرِیناور انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ بہترین خفیہ تدبیر کرنے والو ں میں سے ہے۔(آلِ عمران۔۴۵)

اپنا تبصرہ لکھیں