قسط 7: خود کی خدائی
Personality Disorders
تھیم: جب ذات کا آئینہ سب کچھ دھندلا دے
کرداروں کا تعارف
سلطان سنکی – 42 سال
ہر محفل کا مرکز بننے کا خواہشمند۔ اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھتا ہے۔ تنقید کو حملہ، اور اختلاف کو گستاخی سمجھتا ہے۔ تنہا مگر خود کو بااختیار محسوس کرتا ہے۔
چمپا چنگاری – 29 سال
جذبات کی شدت میں ڈھلتی ہوئی شخصیت۔ بےحد محبت بھی کر سکتی ہے، اور اچانک سب کچھ توڑ بھی سکتی ہے۔ اندر سے خود کو غیرمکمل اور غیرمحفوظ محسوس کرتی ہے۔
ڈاکٹر زویا ذی شعور – 40 سال
شعور کلینک کی سربراہ، علم اور ہمدردی کا امتزاج۔ جذباتی انتشار کو لفظوں کی روشنی سے راستہ دیتی ہیں۔
ڈاکٹر گوگلی – 35 سال
ذہنی پیچیدگیوں کو لطیف انداز میں کھولنے والا ٹک ٹاکر، جس کی باتیں سن کر لوگ ہنستے بھی ہیں اور چونکتے بھی۔
چندہ چغلی – 55 سال
محلے کی غیرسرکاری رپورٹر، ہر مکالمے کو ذاتی تجزیے کے ساتھ پیش کرنے میں مہارت رکھتی ہے۔
دھیان کلنٹن – 25 سال
چپ چاپ بیٹھ کر سب کا مشاہدہ کرنے والا۔ اس کے جملے کبھی کسی آئینے جیسے ہوتے ہیں، جو دوسروں کو خود سے ملواتے ہیں۔
⸻
منظر 1: چبوترا – صبح
چندہ چغلی چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے چمپا کی طرف دیکھتی ہیں اور کہتی ہیں،
“کل سلطان کے لیے دعائیں، آج اُس کی طرف نظریں بھی نہیں۔ یہ جذبات نہیں، یہ تو موسم ہیں بی بی!”
چمپا چنگاری مسکرا کر نظریں جھکاتی ہے،
“میں تھک گئی ہوں چندہ آپا… ہر وقت ان کی باتوں میں بس ‘میں’، ‘میرا’، ‘مجھے’ ہوتا ہے۔”
سلطان سنکی بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولتا ہے،
“جب روشنی اپنی ہو تو دوسروں کی آنکھیں چندھیا ہی جاتی ہیں، چمپا۔ مسئلہ تمھار ی برداشت کا ہے، میرے انداز کا نہیں۔”
چمپا آنکھوں میں تھکن لیے کہتی ہے،
“کبھی لگتا ہے جیسے آپ کے ساتھ میری کوئی آواز ہی نہیں۔ میں بولوں، تو آپ کا غرور ٹکرا کر میری بات کو توڑ دیتا ہے۔”
چندہ چغلی گردن ہلا کر کہتی ہیں،
“محبت میں اتنا شور نہیں ہونا چاہیے… نہ اتنی خود پسندی، نہ اتنی شدت!”
⸻
منظر 2: شعور شفا خانہ – دوپہر
ڈاکٹر زویا فائل بند کرتے ہوئے سلطان سے مخاطب ہوتی ہیں،
“سلطان، آپ دوسروں کو خود سے کمتر کیوں محسوس کراتے ہیں؟ یہ برتری کا احساس، کہیں اندر کی کمی کو چھپانے کی کوشش تو نہیں؟”
سلطان سنکی مسکرا کر جواب دیتا ہے،
“میں تو صرف حقیقت بولتا ہوں ڈاکٹر صاحبہ۔ اگر دوسروں کو میری باتوں سے چوٹ لگتی ہے، تو شاید وہ کمزور ہیں۔”
چمپا خاموشی سے بولتی ہے،
“ہر بار میرے جذبات کو آپ مذاق بناتے ہیں۔ مجھے اکثر لگتا ہے جیسے آپ کے لیے میں صرف تعریف کرنے والی ایک آواز ہوں، کوئی اصل انسان نہیں۔”
ڈاکٹر گوگلی صوفے پر نیم دراز ہو کر بولتا ہے،
“جب خود کی شبیہ ہر آئینے میں تلاش کرو،
تو دوسروں کا عکس کبھی نظر نہیں آتا۔”
چمپا ہچکچاتی ہے مگر بولتی ہے،
“میں خود سے تھک گئی ہوں۔ پہلے کسی کو آسمان سمجھ کر دیکھتی ہوں، پھر خود ہی گرا دیتی ہوں۔ میں کیوں اتنی شدت سے جیتی ہوں؟”
ڈاکٹر زویا اس کی طرف نرمی سے دیکھتی ہیں،
“چمپا، جب آپ اندر سے غیرمحفوظ ہوں تو ہر رشتہ یا تو عبادت بن جاتا ہے یا دشمنی۔ ہمیں جذبات کا بیلنس سیکھنا ہوگا، ورنہ آپ کا دل ہر دن ایک میدانِ جنگ بن جائے گا۔”
دھیان کلنٹن خاموشی سے کاغذ پر کچھ لکھ رہا ہوتا ہے، پھر سر اٹھا کر کہتا ہے،
“جو شخص ہر بار خود کو ثابت کرنے نکلے،
وہ کبھی کسی کے ساتھ چل نہیں سکتا۔
رشتہ اُس وقت بنتا ہے، جب دونوں خود کو تھوڑا کم اور ایک دوسرے کو تھوڑا زیادہ دیکھیں۔”
سلطان کے چہرے پر ہلکی سی خاموشی اترتی ہے۔
⸻
منظر 3: چبوترا – شام
چمپا ہلکی آواز میں کہتی ہے،
“آپ سے بات کر کے اکثر لگتا ہے جیسے میں کوئی کتاب ہوں، جسے آپ نے صرف اپنے مقصد کے لیے کھولا… پھر بند کر دیا۔”
سلطان تھوڑی دیر خاموش رہتا ہے، پھر آہستہ سے کہتا ہے،
“میں خود کو سنبھالنے میں اتنا مصروف رہا، کہ شاید دوسروں کو سننے کا وقت ہی نہیں ملا۔”
چندہ چغلی دانت پیس کر کہتی ہیں،
“جب آئینہ صرف خود کو دکھانے کے لیے ہو، تو سامنے والا اپنا عکس دیکھنے کے لیے دروازہ ڈھونڈتا رہ جاتا ہے!”
ڈاکٹر گوگلی زور سے ہنستا ہے،
“نہ تو یہ آئینہ ہیں، نہ تصویریں…
یہ تو بس اپنی اپنی فلم کے ہیرو ہیں، باقی سب اُن کے اضافی کردار!”
ڈاکٹر زویا سنجیدگی سے دونوں کو دیکھتی ہیں،
“اصل رشتہ تب پیدا ہوتا ہے جب شخصیت کے اندر جگہ ہو۔ نہ کوئی دیوار ہو، نہ کوئی آئینہ۔ صرف ایک کھلا دروازہ، جہاں دوسرا آ سکے، بیٹھ سکے، اور محسوس ہو سکے۔”
دھیان کلنٹن دھیرے سے بولتا ہے،
“جو مسلسل خود کو مرکز رکھے،
وہ باقی سب کو کنارے کر دیتا ہے۔
محبت وہی ہے…
جہاں آپ کسی کی روشنی بنیں،
نہ کہ اُس کی روشنی چھین لیں۔”
⸻
شعور کوٹ – ڈاکٹر زویا ذی شعور
“ذات کے آئینے کو سمجھنے کے لیے، اس میں جھانکنے سے زیادہ ضروری ہے کہ ہم اس پر جمی خود پسندی کی گرد صاف کریں۔ تبھی رشتہ حقیقت بنتا ہے، ورنہ محض عکس رہ جاتا ہے۔”
⸻
اختتامی پنچ لائن – دھیان کلنٹن
“رشتے آئینے نہیں ہوتے،
کہ صرف دیکھے جائیں
وہ دریچے ہوتے ہیں
جن سے روشنی بھی آتی ہے
اور ہوا بھی”
Recent Comments