نوٹوں کے درخت

آج اتوا ر تھا. کام کے دنوں میں تو سویرے ہی سے بھاگم دوڑ کا سلسلہ رہتا ہیاور گھر والوں کو ساتھ بیٹھ کرناشتہ کرنا نصیب نہیں ہوتا لیکن اتوار کو اس گھر کا اصول سا بن گیاتھا کہ گھر کیسارے موجود ممبران کھانے کی میز پر ضرور اکٹھے ہوں.لنچ اور ڈنر میں پابندی کسی وجہ سے نہ ہوسکے تو بریک فاسٹ میں عدم موجوگی کا کوء بہانہ قابل قبول نہیں تھا.
صبح کے آٹھ بجے تھیاور سب ناشتہ کرنے ہی جارہے تھے کہ دروازے کی گھنٹی بجی.
اتنی صبح صبح کون ہوسکتا ہے. بیک وقت سب نے سوچا.ضمیر درواڑہ کھولنے گیا تو دیکھا کہ خلاف توقع سامنے امریکہ والیعرفان چچاکھڑے مسکرا رہیتھے.
“ارے آپ؟”وہ خوشی چیختے ہوئے بولا
اندر آئے تو قریب قریب سب نے حیرت کا اظہار کیا.
اس بار تو آپ نے اپنے آنے کی ہوا بھی نہیں لگنے دی.ہم سب آپ کو کرایہ کی شاندار کارلے کر اسٹیشن استقبال کرنیجاتے. محلے والیبھی دیکھتیکہ ہم کوء ایسے ویسے نہیں ہیں. بڑے بھتیجے شہیر نیشکایتا” کہا
بس چھوڑو بھی. اس بار تم سب کو سرپرائز دینا تھاانھوں نے قدرے توقف سے جواب دیا.
سرپرائز والی بات انھوں نے صریحا”جھوٹ کہی تھی. اس بار انھوں نے یہ طریقہ لمبی لمبی سامانوں کی فرمائش سے بچنے کے لیئے اختیار کیا تھا. حالانکہ گلوبلائیزیشن ہوجانے کیبعد سے چھوٹے چھوٹیسے شہروں کے بازار طرح طرح کے سامانوں سیابلے پڑرہے ہیں لیکن اس کے لیئے پیسیخرچ پڑتے ہیں بغیر اطلاع آنیکی غرض اس کے علاوہ اچانک جاکر یہ بھی چک کرنا تھا کہ ہر چند مہینوں کیبعد جو یہ بھتیجے صاحبان خرچ کی تنگی کی شکایت اور ڈالروں کے تقاضے کرتے رہتے ہیں یہ کہاں تک صحیح ہے.
اکثران کیبچپن کے دوست یاعزیز واقارب اسکائپ وغیرہ تودرکنارجواتنی بھی استطاعت نہیں رکھتے تھیکہ چند منٹ کے لیئے ہی سہی انکو فون کرسکیں انسے ملنے ضرور آتے ان کااس اپنے آباء گھر میں کبھی تین چار دنوں سے زیادہ قیا م نہیں رہا. اس قلیل مدت میں میں بھی ملنیوالوں کا تانتا لگا رہتا .
ابھی آئے ہوئے پندرہ منٹ ہوئے ہونگیکہ گھر آتے ہوئے نوکر یہ پیغام لایاکہ باہر ایک آدمی پورے کیمپس میں سب سیکسی فارن سے آنیوالےآدمی کو پوچھ رہا ہے اور لوگ ڈر رہیکہ وہ یا باہر سےآنیوالا کوء مخبر نہ ہوں.
اووہ. تو صاحب وہ شاید آپ کو ہی ڈھونڈرہا ہینوکر عرفان صاحب کو دیکھتے ہوئے بولا
وہ ضرور کوء ضرورت مند ہوگا . ہر بار میں اپنے سامان سیہواء سفر کا ٹیگ نکال دیا کرتا تھا مگراس بار بھول گیا تاڑ لیا نا کہ کوء موٹا مرغا دکھاء دے گیا ہے بس پھانسو اسے…..
دروازے کی کھٹ کھٹ نے ان کی بات کو مکمل نہ ہونے دیا.
صاحب وہی آدمی ہے وہ آپ کو ہی ڈھونڈ رہا تھا اوراب بلا رہا ہے. نوکر نیباہر دیکھ کر آنے کے بعد کہا
دیکھا سونگھ لیا نا ؟ دلدر کہیں کے. کہاں سے آگیا میں اپنے کو نچوانے کے لئے. سات سال کے بعد آیا ہوں لیکن اب بھی نہیں آنا چاہیئے تھا ان بھکڑوں کیدیس میں بڑبڑاتے ہوئے عرفان صاحب باہر آئے تو سامنے وہی آٹو ڈرایور کھڑاتھا جو جند منٹ پہلے ان کو یہاں تک لایاتھا.
کیا ہے بھاء ہم نے کرایہ تو ادا کردیا تھا. اب ٹپ چاہیئے . سواری ہی تو لائے ہو کوء کارنامہ تو نہیں انجام دیا کہ انعام بھی چاہیئیوہ مسلسل بولتے جارہے تھے
صاحب کچھ میری بھی سنیں گے یا بولتے ہی جائینگے۔ پندرہ منٹ سے لگاتار ڈھونڈنے کے بعد اب ملے ہیں تو میری باتیں ہی نہیں سن رہے ہیں۔……..؟ڈرائیور نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا.
ہاں میں سمجھ گیا کہ تمہیں اور پیسے چاہیئے.حلال کی کماء ہر جگہ مشکل سے ہوتی ہے. وہاں ڈالر پیڑوں پر نہیں اگتے………..
ہاں صاحب مجھے اندازہ ہے اسی لیئے آپ کے اس بٹوہ کو جو آپ سیٹ پر چھوڑ آئے تھے میں کب سے لوٹانے کے لیئے بھٹک رہا تھا۔ ڈالر ٹھیک سے گن لیجیئے،.
اس سے پہلے کہ عرفان صاحب اپنے حواس مجتمع کرتے وہ جاچکا تھا.
, ارے اپنا انعام تو لیتے جا،
وہ آواز لگاتے رہ گئے
رضیہ کاظمی

اپنا تبصرہ لکھیں