♣♣♣ ایک دلچسپ کہانی ایک شخصیت کی ♣♣♣

Ifikhar size

title-ujalaiy

ایک دلچسپ کہانی ایک شخصیت کی !
آج ایک شخص کی کہانی سنانے جارہاہوں جو اپنی ذات میں ایک اُستاد ،ایک درس گاہ اور ایک تجربہ گاہ ہے ایک ایسے شخص کی کہانی جسے خونی رشتوں کی نسبت غیر خونی رشتوں کے عزیز لوگوں نے وہ احترام وہ مقام دیا جو وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا ۔وہ شخص جب کسی اسٹیج پر کسی اجتماع کسی تقریب میں قوم کے باشعور طبقے کے سامنے آتا ہے تو اُس کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی ہوتی ہے ۔اُس کی آنکھوں میں محبت اور خلوص کی چمک ہوتی ہے لیکن افراد نہیں جانتے کہ جس وجود کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی ہے وہ اپنے اندر کس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔روزانہ کسی نہ کسی ارمان کے خون پر نئی قبر کھودتا ہے ۔کئی ایک ارمان دفنانے کے باوجود اگر زندگی کا حسن اُس کے چہرے پر دمکتا ہے تو اس کی وجہ وہ قدر دان ہیں جو اُسے پیار دیتے ہیں ۔اُسے پیار سے بلاتے ہیں ۔احترام دیتے ہیں احترام سے اپنے پاس بٹھاتے ہیں اور اعزازی لفظوں سے نوازتے ہیں ۔
وہ شخص کہتا ہے موبائل فون میرا عزیز دوست اور محترم اُستاد ہے ۔مجھے پڑھاتا ہے ،سکھاتا ہے دکھاتا ہے ۔زندگی کا حسن!!!
یہ کہانی بڑی سبق آموز ہے لیکن یاد نہیں رکھ سکتالکھ لیا کرتا ہے اور لکھ کر محفل میں پڑھتا ہے اس لیے کہ شعور کی میموری میں غم جہاں ،غمِ دوستاں ،غمِ روزگار ،حادثات وحالات کی کچھ ایسی یادیں سمائی ہوئیں ہیں کہ وہ چاہے بھی تو ڈیلیٹ نہیں کر سکتا ۔وہ کہانی کیا ہے دیکھئے ؟
کہتا ہے مجھے ریشم کے کیڑے کا ایک خول ملا ،میں نے دیکھا کہ اُس خول سے ایک تتلی نکلنے کی کوشش کر رہی ہے خول سے باہر آنا چاہتی ہے وہ تماشہ دیکھنے لگا ۔تتلی کافی کوشش کے باوجود خول سے نہ نکل سکی تو اُسے تتلی کی کمزوری کو سوچنے لگا اس کی قوت جواب دے گئی ہے اُسے تتلی پر ترس آیا اور قینچی سے خول کاٹ دیا ۔تتلی خول سے باہر آئی وہ بڑی موٹے وجود کی مالک تھی وہ اُس کے اُڑنے کے انتظار میں بیٹھ گیا تتلی اُڑ تو نہ سکی البتہ کھڑے پروں کیساتھ رینگنے لگی ۔
قصہ مختصر۔۔۔اُس کا قصور یہ تھا کہ یہ حکمتِ خداوندی ہے وہ نہیں جانتا تھا کہ تتلی حکمتِ خداوندی سے خول سے باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو اُس کے موٹے وجود کی چربی پگھل کر انرجی کی صورت میں اُس کے پروں کو تقویت دیتی ہے ۔وجود پتلا اور پَر مضبوط ہوجاتے ہیں وہ آسانی سے خول سے نکل کر اُڑنے لگتی ہے اُس شخص کی مدد تتلی کو بڑی مہنگی پڑی وہ اُڑنے سے معذور ہوگئی اور زمین پر رینگنے لگی وہ نہیں جانتا تھا کہ تتلی کا خول سے جدوجہد کرکے نکلنا کتنا ضروری ہے ۔کئی بار انسان کو جدوجہد میں بہت مشکل پیش آتی ہے لیکن اگر انسان مسائل اور مشکلات کا شکار نہ ہوتو زندگی لنگڑی ہوجاتی ہے ہم اسقدر مضبوط نہیں ہو پاتے کسقدر مضبوط ہونا ہماری ضرورت ہے یعنی اگر ہم اُڑنا چاہیں تو اُڑ نہیں پاتے ۔
ہم اللہ تعالیٰ سے قوت مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں مشکلات سے دوچار کر دیتا ہے تاکہ ہم مضبوط ہوجائیں ۔ہم خداسے حکمت مانگتے ہیں اور خدا ہمیں
مسائل دے دیتا ہے کہ اپنے مسائل خود ہی حل کرو ۔ہم خوشحال زندگی کی دعا مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں دماغ اور صحت دیتا ہے تاکہ ہم اپنی منزل خود تلاش کریں کام کریں ہم خدا سے ہمت مانگتے ہیں تو خدا ہمیں خطروں سے دوچار کر دیتا ہے تاکہ حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے خود میں جرأت پیدا کریں ۔ہم پیار مانگتے ہیں اور خدا ہمیں مصیبت زدہ لوگوں میں جینے کا موقع دیتا ہے تاکہ اُن کی امداد کریں ۔ہم خدا سے مدد مانگتے ہیں لیکن ہمیں وہ کچھ نہیں ملتا ۔جو ہم مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں وہ سب کچھ دیتا ہے جس کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے اس لیے کہ خدا جانتا ہے کہ ہم کس چیز کے محتاج ہیں ۔ہر کام میں خدا کی رضا تلاش کرو کہتا ہے خود سے ایسا کوئی کام مت کرو جس میں نقصان ہو ہر لمحہ خدا کا شکر ادا کرو جو ملا ہے اُس پر صبر کرو ۔میں جانتا ہوں کہ جلد بازی کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے ۔خدا کبھی بھی اپنے بندوں کو ایسی مشکلات سے دوچار نہیں کرتا جسے ہم برداشت نہ کر سکیں اور نہ ہی ایسی مصیبت میں ڈالتا ہے جس سے کوئی بھلائی پیدا نہ ہو ۔ہر تاریک شب کی صبح روشن ہوا کرتی ہے ۔
یہ ہے اُس شخصیت کی کہانی جس نے وہی کیا جو اُسے کرنا چاہیے تھا ۔اُس نے بہت کچھ مانگا لیکن اُسے وہی کچھ ملا جو اُس کو چاہیے تھا اُس نے کبھی بھینہیں سوچا کہ لوگ اُس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اُس نے کبھی بھی کسی سے نفرت پر اپنی محبت قربان نہیں کی اور اس کا صلہ اُسے کیا ملا ۔وہ اپنی حیات میں اپنے چاہنے والوں کی نظر میں قابل صد احترام اور صاحبِ مقام ہے اُس نے کبھی نہیں سوچا کہ اُس کے اپنے اُسے احترام نہیں دیتے اس لیے کہ جس قدر احترام کی اُس کو ضرورت ہے وہ اُس کے چاہنے والے اُسے دے رہے ہیں ۔وہ کسی کی کم ظرفی پر تڑپتا ضرور ہے لیکن وہ جانتا ہے کہ دکھ تو اُسے دیا جاتا ہے ۔جو دکھ دینے والے طبقے میں اپنے کردار وعمل ،قول وفعل میں اعلیٰ ہے اخلاق ومحبت میں اُن سے بالا ہے ۔
اس شخص کی زندگی کے ہر پہلو پر روشنی سے آپ کو تجسس ہوگا سوچ رہے ہوں گے کہ وہ شخص ہو کون ؟تو میں بتاتا ہوں میں نہیں جانتا کہ اُس شخصیت کا نام سن کر اُس کے گیت گائیں گے یا مذاق اُڑائیں گے اُس شخصیت کا نام ہے ’’گل بخشالوی ‘‘
سبحان الدین سے گل بخشالوی تک کے طویل اور صبر آزما سفر میں کئی ایک نشیب وفراز سے گزر کر گل بخشالوی آج اُس مقام پر ہے کہ ایک شخصیت نے اُس کی ادبی خدمات کے اعتراف میں لکھا اور اُسے M.Philکی ڈگری مل گئی ۔

اپنا تبصرہ لکھیں