کارساز والی دلہن

May be an illustration
رات کا سناٹا کارساز روڈ پر ایک بھاری پردے کی طرح چھایا ہوا تھا۔ کراچی کی یہ شاہراہ، جو دن کے وقت گاڑیوں کے شور سے گونجتی تھی، رات کے تیسرے پہر میں ایک خوفناک خاموشی کی آغوش میں تھی۔ سڑک کے کنارے لگے پرانے لیمپ پوسٹس کی مدھم روشنی بس سائے کو اور گہرا کر رہی تھی۔ ہوا میں ایک عجیب سی سرسراہٹ تھی، جیسے کوئی پرانی، ادھوری داستان اپنی آخری سانس لے رہی ہو۔
ارشد اپنی پرانی ٹویوٹا کرولا چلا رہا تھا۔ رات کے ڈھائی بجے وہ اپنے دوست کی شادی کی تقریب سے واپس آرہا تھا، تھکاوٹ سے اس کی آنکھیں بوجھل تھیں۔ کارساز روڈ اسے گھر کا قریبی راستہ لگا، لیکن اسے کیا پتہ تھا کہ یہ رات اس کی زندگی کا سب سے خوفناک لمحہ بننے والی ہے۔ اس نے گاڑی کی کھڑکی کھول رکھی تھی، کیونکہ رات کی ٹھنڈی ہوا اسے جگانے کا واحد ذریعہ تھی۔ لیکن اس ہوا میں ایک عجیب سی مہک تھی — جیسے پھولوں کی خوشبو، لیکن اس میں موت کی سڑاند ملائی ہو۔
سڑک پر کوئی گاڑی نہیں تھی، سوائے ایک آدھ ٹرک کے جو دور سے گزرتا دکھائی دیتا۔ ارشد نے اپنا فون چیک کرنے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا، لیکن اچانک اس کی نظر سڑک کے کنارے پڑی۔ وہاں، ایک پرانے، ٹوٹے ہوئے پل کے نیچے، ایک عورت کھڑی تھی۔ اس نے لال جوڑا پہن رکھا تھا، جو دلہن کے لباس جیسا لگتا تھا، لیکن وہ جوڑا عجیب طور پر چمک رہا تھا، جیسے خون سے تر ہو۔ اس کے لمبے، کالے بال اس کے چہرے پر پھیلے ہوئے تھے، اور وہ سر جھکائے کھڑی تھی، جیسے کوئی بےجان سایہ۔
“اتنی رات گئے یہاں لال جوڑے میں کون؟” ارشد نے سوچا، اور اس کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ اس نے گاڑی کی رفتار کم کی، لیکن اس کے دل کے کسی کونے میں ایک آواز چلا رہی تھی، “آگے بڑھ جا، مت رُک!” پھر بھی، اس نے سوچا کہ شاید کوئی عورت پریشان ہے، اور اس نے گاڑی روک دی۔
“بی بی، کیا بات ہے؟ کہاں جانا ہے؟” ارشد نے کھڑکی سے جھک کر پوچھا۔ عورت نے کوئی جواب نہ دیا، بس خاموشی سے گاڑی کے عقبی دروازے کی طرف بڑھی۔ اس نے دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گئی۔ ارشد نے رئیر ویو مرر میں دیکھا، لیکن اس کا چہرہ واضح نہیں تھا۔ اس کے بال اس کے چہرے کو ڈھانپ رہے تھے، اور وہ سر جھکائے بیٹھی تھی، جیسے کوئی پتھر کی مورتی۔ “بی بی، کہاں جانا ہے؟” ارشد نے دوبارہ پوچھا، لیکن جواب کے بجائے اسے ایک عجیب سی آواز سنائی دی — جیسے کوئی ہلکی سی سسکی، یا پھر کسی دلہن کی رخصتی کا رونا۔
ارشد نے گاڑی اسٹارٹ کی اور آگے بڑھنا شروع کیا، لیکن اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ گاڑی کے اندر کا ماحول بدلنے لگا۔ ہوا ٹھنڈی سے ٹھنڈی تر ہوتی جا رہی تھی، اور ارشد کو لگا جیسے کوئی اس کے کانوں میں سرگوشی کر رہا ہو۔ “تم… میری… شادی… دیکھنے آئے ہو…” ایک بھاری، کھردری آواز اس کے کانوں میں گونجی۔ ارشد کے ہاتھوں سے سٹیئرنگ چھوٹتے چھوٹتے رہ گیا۔ اس نے مرر میں دیکھا، اور اس کا خون جم گیا۔ پیچھے والی سیٹ خالی تھی۔ کوئی نہیں تھا۔ لیکن اسے یقین تھا کہ اس نے عورت کو گاڑی میں بٹھایا تھا۔
اس نے گاڑی کی رفتار بڑھائی، لیکن اچانک گاڑی کا انجن عجیب سی آواز کے ساتھ رکنے لگا۔ ارشد نے سٹارٹر مارنے کی کوشش کی، لیکن گاڑی ہلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اسی لمحے، اسے لگا جیسے کوئی اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ رہا ہے۔ اس نے گردن موڑ کر دیکھا، اور اس کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ وہ عورت اب اس کے برابر والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ اس کے بال ابھی بھی اس کے چہرے کو ڈھانپ رہے تھے، لیکن اس کی آنکھیں… وہ آنکھیں خالی تھیں، جیسے دو گہرے، سیاہ کنویں۔ اس کے لال جوڑے سے خون ٹپک رہا تھا، اور اس کے ہاتھوں پر مہندی کے عجیب، خوفناک ڈیزائن بنے ہوئے تھے، جیسے خون سے بنائے گئے ہوں۔
“تم… میری… بارات… میں ہو…” اس کی آواز ایسی تھی جیسے قبر سے آ رہی ہو۔ ارشد نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی، لیکن وہ جیسے جادو سے بند ہو چکا تھا۔ اس نے چیخنا چاہا، لیکن اس کی آواز اس کے گلے میں ہی دب کر رہ گئی۔ عورت کے بال اچانک ہوا میں لہرانے لگے، اور اس کا چہرہ آہستہ آہستہ ارشد کی طرف مڑا۔ اس کی آنکھوں سے خون بہہ رہا تھا، اور اس کا چہرہ… وہ چہرہ کوئی انسانی چہرہ نہیں تھا۔ اس کی جلد پھٹی ہوئی تھی، جیسے کوئی سڑا ہوا کپڑا، اور اس کے منہ سے ایک گھناؤنی بدبو آ رہی تھی، جیسے موت کی سڑاند۔
“میں… اپنی… شادی… پوری کروں گی…” اس نے کہا، اور اس کے ہاتھ آہستہ آہستہ ارشد کی گردن کی طرف بڑھے۔ اس کے ناخن لمبے اور نوکیلے تھے، جیسے کسی درندے کے پنجے۔ ارشد نے اپنی پوری طاقت سے دروازے پر دھکا دیا، اور بالآخر وہ کھل گیا۔ وہ گاڑی سے باہر گرا، اور اس نے اپنی جان بچانے کے لیے سڑک پر بھاگنا شروع کیا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو گاڑی خالی تھی، لیکن سڑک کے کنارے وہی لال جوڑے والی دلہن کھڑی تھی، اس کی آنکھیں ابھی بھی ارشد کو گھور رہی تھیں۔ اس کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی، اور اس نے ایک ہاتھ بلند کیا، جیسے ارشد کو واپس بلا رہی ہو۔ اس کے جوڑے سے خون کے قطرے سڑک پر گر رہے تھے، اور ہر قطرے کے ساتھ ایک عجیب سی آواز گونجتی تھی، جیسے کوئی رونا۔
ارشد بھاگتا رہا، اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ کتنی دور بھاگا۔ جب وہ رکا، تو وہ کارساز روڈ سے بہت دور، ایک خالی پلاٹ کے قریب کھڑا تھا۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی، اور اس کا جسم خوف سے کانپ رہا تھا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا، لیکن وہ دلہن وہاں نہیں تھی۔ لیکن اس کے کانوں میں وہی آواز گونج رہی تھی: “میں… اپنی… شادی… پوری کروں گی…”

صبح جب ارشد کی گاڑی کارساز روڈ پر ملی، تو وہ بالکل ٹھیک حالت میں تھی۔ لیکن ارشد کی حالت ایسی تھی جیسے اس نے موت کو قریب سے دیکھا ہو۔ اس نے اپنے دوستوں کو یہ کہانی سنائی، لیکن کچھ نے اس پر ہنسا، اور کچھ نے کہا کہ یہ کارساز والی دلہن کی کہانی ہے، جو برسوں سے اس سڑک پر بھٹک رہی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ دلہن ایک ایسی عورت کی روح ہے جو کئی سال پہلے کارساز روڈ پر ایک خوفناک حادثے کا شکار ہوئی تھی۔ وہ اپنی شادی کے دن، اپنے لال جوڑے میں سجی، اپنے دولہا کے پاس جا رہی تھی جب اس کی گاڑی پل سے نیچے گر گئی۔ اس کی روح اب بھی اس سڑک پر اپنی نامکمل شادی کو پورا کرنے کے لیے بھٹکتی ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ وہ ہر اس شخص کو اپنی بارات کا حصہ بنانا چاہتی ہے جو رات کے وقت اس سڑک سے گزرتا ہے۔ اس کا لال جوڑا اس کے خون سے رنگا ہوا ہے، اور اس کی مہندی اس کے درد کی داستان سنا رہی ہے۔
آج بھی، جب لوگ کارساز روڈ سے گزرتے ہیں، خاص طور پر رات کے سناٹے میں، وہ ایک عجیب سی بےچینی محسوس کرتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک لال جوڑے والی دلہن کو دیکھا، جو سڑک کے کنارے کھڑی ہوتی ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ ان کی گاڑی بلا وجہ رکی، یا انہیں عجیب سی سسکیوں کی آوازیں سنائی دیں۔ سچ ہو یا جھوٹ، ایک بات طے ہے — جب تم کارساز روڈ سے گزرتے ہو، تمہارے دل میں ایک خوف ضرور جاگتا ہے۔ تم بے اختیار مرر میں دیکھتے ہو، کہ کہیں پیچھے… کوئی لال جوڑا تو نہیں۔ اور جب تم وہاں سے نکلتے ہو، تمہارے کندھوں پر ایک بوجھ سا رہتا ہے، جیسے کوئی تمہارے ساتھ چل رہا ہو

اپنا تبصرہ لکھیں