نماز اور کمفرٹ زون

٭٭٭٭
ترقی کرتے کرتے انسان نے اپنا کمفرٹ اتنا بڑھا لیا ہے کہ وہ پنجرے کی طرح اس میں قید ہو کر رہ گیا ہے۔ پہلے پانی کے پاس چل کرجانا پڑتا تھا، پھر پانی گھروں میں آگیا، بلکہ انگلی کے اشارے پر آگیا۔ اور یہ انسانی ترقی کی انتہاء ہے۔ اب یہ کمفرٹ کا جال انسان کے لیے پھندا بن گیا ہے۔ہم نے پہلے کمفرٹ زون بنایا، پھر اس کے عادی ہوئے، اور پھر اس سے نکلنے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔اب کوچنگ ہو رہی ہیں، کونسلنگ اور ٹریننگ لی جا رہی ہیں کہ کیسے کمفرٹ زون سے باہر نکلا جائے۔ واٹس ایپ، یو ٹیوب پر موٹیوینشل ویڈیوز کا ڈھیر لگا ہوا ہے اور ہر بندہ ایک ہی بات کرر ہاہے کہ کامیاب ہونا ہے تو کمفرٹ زون سے نکلنا ہو گا۔ٹرینر اچھے خاصے پیسے بنا رہے ہیں، مارکیٹ میں اس موضوع پر بکس کے ڈھیر لگ چکے ہیں۔ لوگ جنگلوں،چھوٹے شہروں، گاؤں میں رہنے لگے ہیں کہ سادہ طرز زندگی کے عادی ہوں، مشقت کریں تاکہ کمفرٹ زون کے سرکل کو توڑ سکیں۔(اس کے لیے آپ آن لائن ویڈز دیکھ سکتے ہیں)۔
کمفرٹ زون! کبھی اس کی گہرائی میں جا کر کھوج کریں کہ یہ ہے کیا!یہ ایک سلا دینے والی،ٹھنڈا کر دینے والی کیفیت ہے۔چیزیں ٹھنڈی ہو کر جم جاتی ہیں، ان میں نمو کی گنجائش رہتی ہی نہیں یا کم ہو جاتی ہے۔ گلیئشرز پر فصلیں اگتی ہیں؟ پھل؟سبزا؟نہیں۔۔۔۔کائنات میں جتنی بھی چیزیں پروان چڑھ رہی ہیں، وہ گرم اورمحترک ہیں۔حتیٰ کہ وہ گلیئشر بھی جو برف سے ڈھکے ہوئے ہیں، ان کے اندر لاوے کی بھٹی جل رہی ہے۔ انسان آگ، پانی، ہوا اور مٹی سے بنا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی عنصر ٹھنڈا نہیں ہے۔ پانی اور مٹی متعدل عناصرہیں۔ تو یہ سلا دینے والی ٹھنڈک(کمفرٹ) انسان کے لیے موت ہے۔اسے آرام طلبی سستی ختم کرنی ہی ہو گی۔ ہر حال میں متحرک ہونا ہی ہوگا۔ جب انسان پر تحقیق کی گئی کہ آخر اسے نیند اتنی عزیز کیوں ہےا ور پرسکون ماحول ملتے ہی وہ آرام طلب کیوں ہو جاتا ہے تو معلوم ہوا کہ چونکہ انسان کی ابتداء ہی اس سے ہوئی تھی۔ مجھے ایک دم خیال آیا کہ ہاں انسان کا پتلا ایک لمبی مدت تک جمی ہوئی کیفیت میں پڑا رہا تھا۔ اگر آپ بہت پیچھے جا کر اس کیفیت کا جائزہ لیں گے تو جان جائیں گے کہ انسان کن کن مراحل سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہے۔ آرام طلبی صرف نیند یا آرام کرنے کو نہیں کہتے۔ بھوک لگنے پر کھانا، کھانا بھی کمفرٹ ہی ہے۔جتنی بھی سہولتیں ہمارے آس پاس موجود ہیں، وہ سب کمفرٹ میں آتی ہیں۔ آج کل ہمارا کمفرٹ زون نیند، بے جا آرام،موبائل کے ساتھ مصروفیت اور بے کار کی سرگرمیاں ہیں۔
میں نے جتنا کمفرٹ زون پر غور کیا اتنا ہی جانا کہ نماز انسان کو کمفرٹ زون سے باہر نکالتی ہے، خاص طور پر فجر اور عشاء کی نمازیں۔فجر نیند کی وجہ سے مشکل ہے اور عشاء دن بھر کی تھکان کی وجہ سے۔ اور یہ وہ دو وقت ہوتے ہیں جو ہمیں آرام پر مجبور کرتے ہیں، اور انہی دونوں کو ہرا کر، ہمیں آگے بڑھنا ہوتاہے، سرکل توڑنا ہوتاہے۔ کیونکہ اگر ایک بار یہ سرکل ” مستقل” ہو گیا زندگی کے ہر مرحلے پر حاوی ہو کر ناکام کر دے گا۔کیونکہ انسان کمفرٹ موڈ میں چلا گیا، یعنی سلا دینے والی ٹھنڈی کیفیت اور یہ کیفیت انسان کو پروان نہیں چڑھنےدیتی۔
مجھے نماز پر ہمیشہ ایک چیز نےغور و فکر پر مجبور کیا کہ آخر کیوں ہر حال میں یہ عبادت فرض ہے۔ ضعیف پر بھی فرض،تکلیف میں مبتلا پر بھی فرض۔ انتہائی غم اور انتہائی خوشی، دونوں میں فرض۔یعنی کوئی صورت ہی نہیں کہ اسے چھوڑا جا سکے۔ مجھے اس چیز نے ہمیشہ حیران کیا کہ آخر ایسا کیوں کہ کبھی اس سے چھٹی ہی نہیں۔ چونکہ انسان کی عقل محدود ہے تو انسان کو اس کے سب فوائد گنوائے یا سمجھاے نہیں جا سکتے۔ہم گاؤں کے رہنے والے سادہ سے بندے کو ” جینز” یا دماغ کی کارکردگی نہیں سمجھا سکتے۔بلکہ بے شمار پڑھے لکھے لوگ ایسے ہیں جو جینز کے بارے میں الف ب نہیں جانتے۔حتٰی کہ وہ ماہرین جنہوں نے جینز پر ریسرچ پر اپنی عمریں لگا دیں، وہ بھی پوری طرح سے اسے نہیں سمجھ سکے،تو عام انسان کیسے سمجھ سکیں گے؟انسان عام ہو یا خاص وہ سارا علم حاصل نہیں کر سکتا۔ تو پھر وہ کیا کرے گا؟کون سا راستہ آسان ہے؟
سب سے آسان راستہ یہ ہے کہ جو بتایا گیا ہے اس پر عمل کرنا ہو گا۔ فرض، ہر حال میں فرض، تو اسے ہر حال میں ادا کرنا ہوگا،کیونکہ یہی فلاح ہے، اسی میں خیر ہے، اور یہی ہماری نجات ہے۔نماز کو پڑھنے کی بجائے، ادا کریں۔ اسے ادا کریں اور قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ اس پر غور کریں کہ آخر یہ کیوں فرض ہے۔ میں نے نماز سے بہترین کمفرٹ زون کا سرکل توڑنےو الی کوئی عبادت نہیں دیکھی۔لوگ ہزاروں روپے لگا کر کوچنگ کروا رہے ہیں، گھنٹوں ویڈیوز دیکھتے اور لیکچرز سنتے ہیں، وہ پھر بھی اپنا کمفرٹ زون توڑنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں، تو”حی الفلاح” کی طرف آکر دیکھیں۔
٭٭٭٭
نوٹ: نماز کے بے شمار فوائد میں سے یہ ایک عام لیکن بہت اہم فائدہ ہے۔ہم نماز اور دماغ کی کارکردگی پر بھی جلد ہی بات کریں گے۔
٭٭٭٭
سمیراحمید

اپنا تبصرہ لکھیں