مخصوص طبقہ کے ساتھ امتیازی سلوک کے واقعات

Syed Fazil Hussain Parvez11

از : ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز‘

چمخصوص طبقہ کے ساتھ امتیازی سلوک کے واقعات کو بے نقاب کیا تھا۔ اسے اس کے ساتھیوں کے ساتھ معطل کیا گیا تھا۔ اس کی اسکالرشپ روک دی گئی تھی۔ اسے ہر طرح سے ذہنی اذیت دی گئی تھی۔ روہت جانتا تھا کہ اس کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوگی اس نے زبان قلم سے سب کچھ کہہ دیا اور اس دنیا سے چلا گیا۔ اس کے بعد خواب غفلت میں سوئے ہوئے لوگ بیدار ہوئے۔ اس کی ارتھی، چتا، تصویر، اور اب اس کے نام پر اپنی اپنی سیاسی دکانیں چمکانے لگے۔ روہت کو اس کی موت کے بعد وہ مقام دیا گیا جس کا شاید اس نے اپنی زندگی میں تصور بھی نہ کیا تھا۔ ہر جماعت کے قائد نے اس کے لئے آواز اٹھائی اس لئے کہ اس کا تعلق دلت طبقہ سے تھا اور اس کے لئے آواز اٹھانے سے اچھی خاصی شہرت مل جاتی ہے۔ جو حالات روہت ویمولا کے ساتھ پیش آئے وہی حالات اس وقت مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ڈاکٹر محمد شجاعت علی راشد کے ساتھ پیش آرہے ہیں جنہیں ان کے ناکردہ گناہوں کی سزا کے طور پر ڈپٹی ڈائرکٹر سنٹر فار پروفیشنل ڈیولپمنٹ اردو میڈیم ٹیچرس (CPDUMT) کے عہدہ سے ہی نہیں بلکہ ملازمت سے برطرف کردینے کے احکامات اردو یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر جاری کردےئے گئے ہیں۔ ڈاکٹر شجاعت علی راشد کے خلاف یہ فیصلہ مبینہ و متفقہ طور پر7؍مارچ 2016ء کو یونیورسٹی کی ایگزیکٹیو کونسل کے ہنگامی اجلاس میں کیا گیا جبکہ باوثوق ذرائع کے مطابق یہ اطلاعات ملی تھیں کہ ایگزیکٹیوکونسل کے اس اجلاس میں صرف ایک ایسے رکن نے شجاعت کی مخالفت کی جس کے خلاف کروڑوں روپئے کے اسکام کی تحقیقات کے لئے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اصولی طور پر ایگزیکٹیو کونسل کے اجلاس کے لئے 15دن پہلے نوٹس دی جاتی ہے تاہم 7؍مارچ کو منعقدہ اس اجلاس کے لئے تمام ارکان سے صرف ٹیلی فون پر اس کی اطلاع دی گئی۔ اجلاس میں شجاعت علی کے مقدمہ سے متعلق دستاویزات بھی ارکان کو فراہم نہیں کی گئیں۔ صرف شجاعت علی سے متعلق ہائی کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا اس کی کاپی 5منٹ کے لئے ارکان کو فراہم کی گئی۔ اس اجلاس میں ایک رکن نے مبینہ طور پر شجاعت علی کی برطرفی کی مخالفت کی‘ بعض نے خاموشی اختیار کی۔ اس میٹنگ میں ریکارڈنگ ہونی چاہئے تھی اور اسے منظر عام پر لانا چاہئے تھا۔
شجاعت علی راشد کے خلاف کاروائی کیوں؟
15؍اگست 2014ء کو سابق وائس چانسلر محمد میاں تانڈور کے ایک مندر گئے جس کی خبر 16؍اگست 2014ء کے روزنامہ سیاست میں شائع ہوئی۔ ڈاکٹر شجاعت کے خلاف الزام عائد کیا گیا کہ یہ خبر اِن کے ذریعہ اخبار تک پہنچی اور شائع ہوئی۔ اتفاق کی بات ہے کہ 15؍اگست 2014ء کو راقم الحروف کے ساتھ ایک تقریب میں شجاعت علی راشد رات دیر گئے تک موجود تھے جس کی تصاویر اور ویڈیو کلیپنگ دستیاب ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ روزنامہ سیاست کے نیوز ایڈیٹر جناب عامر علی خان نے اور روزنامہ منصف سے وابستہ سینئر صحافی طاہر رومانی نے وائس چانسلر اور رجسٹرار مانو کے نام تحریری طور پر تردید کی کہ محمد میاں سے متعلق کسی خبر کی اشاعت میں شجاعت علی راشد کا کوئی رول رہا۔ یا اس سلسلہ میں انہوں نے کسی قسم کا رابطہ قائم کیا۔ تحریری طور پر تردید کے باوجود یونیورسٹی کی جانب سے مقرر کردہ انکوائری آفیسر نے اپنی رپورٹ میں طاہر رومانی کا حوالہ دیا جس پر مسٹر رومانی نے سخت الفاظ میں نہ صرف تردید کی بلکہ قانونی چارہ جوئی کرنے کا بھی انتباہ دیا۔ انکوائری کمیٹی کا تقرر خود غیر مجاز تھا کیوں کہ مبینہ طور پر 70سال سے زائد عمر کے کسی عہدیدار کو انکوائری آفیسر مقرر نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ محمد میاں کے مندر میں درشن کا واقعہ یونیورسٹی سے تعلق نہیں رکھتا۔ یہ کیمپس کے باہر پیش آیا چوں کہ ایک مقدس نام کے حامل وائس چانسلر کے عہدہ پر فائز شخصیت جب مندر میں درشن کرتی ہے تو وہ خبر بن جاتی ہے۔اس لئے اگر یہ خبر شائع ہوئی ہے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ شجاعت پر یہ الزام تھا کہ اس خبر کی اشاعت سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوسکتی تھی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نہ تو فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوئی اور نہ ہی فضاء مکدر ہوئی‘ نہ ہی محمد میاں کا امیج متاثر ہوا کیوں کہ ساری دنیا محمد میاں کے’’سیکولر‘‘ کردار سے واقف تھی۔ اس کے علاوہ اگر مگر لیکن کی اساس پر کسی کے خلاف کاروائی نہیں کی جانی چاہئے۔ محمد شجاعت علی کے خلاف انکوائری آفیسر نے کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کیا۔ یہ ضرور کہا کہ Circumstantial Evidence کی بنیاد پر ان کے خلاف الزام ثابت ہوتا ہے۔ ڈاکٹر شجاعت علی راشد نے مانو کے فیصلے کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جس نے مانو کے فیصلے کے خلاف یونیورسٹی کو ہدایت دی تھی کہ وہ سابقہ فیصلہ سے متاثر ہوئے بغیر دوبارہ فیصلہ کریں۔ ایگزیکٹیو کونسل میںیہ معاملہ پیش کیا گیا مگر کونسل کے بیشتر ارکان وہی ہیں جنہوں نے 11؍مئی 2015ء کو شجاعت علی راشد کو ملازمت سے برطرف کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انہیں پہلے فیصلہ کو ہی دہرانا پڑا ورنہ ان پر سوال اٹھائے جاتے مگر سوال تو اب چاروں طرف سے اٹھائے جائیں گے۔ کیوں کہ یہ اپنی نوعیت کا بدترین فیصلہ ہے جو انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔ محمد میاں جو فیصلہ کرکے گئے تھے نئے وائس چانسلر کے جائزہ لینے کے بعد یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ یونیورسٹی کے اچھے دن آئیں گے کیوں کہ نئے وائس چانسلر قرآن، حدیث کے حوالوں کے بغیر بات نہیں کرتے۔ ان کی بہت اچھی امیج رہی ہے اور جس دن انہوں نے جائزہ لیا تھا اس دن ہی اپنے جذباتی تقریر میں یہ کہا تھا کہ وہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کریں گے۔ شاید وہ انصاف کرنا چاہتے تھے مگر وہ اُن عناصر کے آگے بے بس ہیں جن کے خلاف خود انہوں نے تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دیں۔
شجاعت علی راشد حق پر ہونے کے باوجود لوگ خلاف کیوں؟
جس کسی کو شجاعت علی راشد کے خلاف یونیورسٹی کی کاروائی کا علم ہے وہ خدا کو حاضر و ناظر جان کر (بشرطیکہ اس کا ایمان اور ضمیر سلامت ہو) کہہ سکتا ہے کہ یہ ناانصافی کی جارہی ہے۔ مگر شجاعت سے مختلف معاملات میں مختلف لوگوں کے اختلافات رہے ہیں مثال کے طور پر مانوٹا کے صدارتی انتخابات میں شجاعت نے اس وقت کے انچارج وائس چانسلر کے خلاف حصہ لیا تو اسے اَنا کا مسئلہ بنالیا گیا۔ شعبہ اردو کے ایک سابق صدر کی من مانی کے خلاف شجاعت نے آواز اٹھائی تو وہ اس کے خلاف ہوگیا۔ شخصی اختلافات کا بعض عناصر نے انتقام بھی لیا ہے۔ جب کسی سے اس مسئلہ پر پوچھا جاتا ہے تو یہ کہتا ہے کہ ہاں! شجاعت کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے مگر انہیں یہ شکایت بھی ہے کہ شجاعت کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔
شجاعت کے خلاف کاروائی کا اثر مانو کے ملازمین پر:
مانو کے ملازمین اس وقت سہمے سہمے سے ہیں۔ مانو ٹیچر اسوسی ایشن کی میٹنگ 16مارچ 2016ء کو ہونے والی تھی جسے وی سی صاحب نے ملتوی کرنے کا حکم دیا کیوں کہ NAAC کی ٹیم کیمپس کا دورہ کرنے والی تھی اور یہ اندیشہ تھا کہ شجاعت علی راشد کے مسئلہ پر مانوٹا احتجاج کرے گی۔ ویسے مانوٹا کو بہت ہی منصوبہ بند طریقہ سے کمزور کردیا گیا ہے۔ اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ مانوٹا کے ایک عہدیدار جنہیں اب پروفیسر بنادیا گیا ہے‘ وہ حق وفاداری کی خاطر شجاعت علی راشد یا کسی بھی ملازم کے ساتھ ناانصافی کے خلاف احتجاج میں عملی طور پر بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں۔ یونیورسٹی کے بعض ملازمین نے شجاعت کے خلاف کئے گئے فیصلے پر شدید رد عمل ظاہر کیا اور اندیشہ ظاہر کیا کہ اگر اس فیصلے کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی اور فیصلے پر نظر ثانی کیلئے مجبور نہ کیا گیا تو کل کسی اور کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔شجاعت سے اختلافات اپنی جگہ مگر ملازمین کے اجتماعی مفادات کے لئے شجاعت کیلئے قانونی لڑائی لڑنی ہی پڑے گی۔
اردو یونیورسٹی کو ہائی اسکول بنانے کی کوشش:
مانو کی ایگزییکٹیو کونسل نے ایک ایسے وقت یہ فیصلہ کیا ہے جب تمام جامعات میں طلبہ اساتذہ اپنے جمہوری اور دستوری حقوق، اظہار خیال کی آزادی کی لڑائی لڑرہے ہیں۔جے این یو کا جو واقعہ پیش آیا جس میں خاص طلبہ اور اساتذہ کو اظہار خیال کی آزادی پر دیش دشمن قرار دیا گیا تھا اس یونیورسٹی میں نہ صرف طلبہ اور اساتذہ کو اپنی لڑائی میں کامیابی ملی ہے بلکہ اس سے پورے ملک میں ہی نہیں ساری دنیا میں یہ پیغام پہنچا ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت زندہ ہے۔ کوئی طاقت کسی بھی فرد سے اس کی بنیادی آزادی اور اس کے دستور حقوق چھین نہیں سکتی۔ مانو میں بھی دبی دبی چنگاری نظر آرہی ہے۔مختلف یونیورسٹیز کے طلباء اور اساتذہ یقینی طور پر مانو کی ایگزیکٹیو کونسل کے ظالمانہ اور منصفانہ فیصلہ کے خلاف متحدہوکر اور بہت سے اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کو اپنی میعاد کی تکمیل کے بغیر ہی واپس ہونا پڑے گا۔آج ہر ایک فرد یہ سوال کررہا ہے کہ جب کنہیا کمار، عمر خالد پروفیسر گیلانی کو سنگین الزامات کے باوجود ان کے متعلقہ یونیورسٹیز ، ان کے عہدوں پر برقرار رکھتی ہے تو کیا شجاعت علی راشد کو ایسے جرم کی سزا دی جارہی ہے جو اس سے سرزد ہوا ہی نہیں ہے۔
صحافت اور قیادت سے امید:
اردو صحافت نے ہمیشہ ناانصافی اور جبر و استبداد کے خلاف آواز اٹھائی مسلم قیادت نے حیدرآباد سے لے کر ایوان پارلمنٹ تک کنہیا کمار، روہت ویمولا اور ان جیسے مظلوموں کے خلاف آٰواز اٹھائی ہے۔ اور اب جبکہ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ایک کلمہ گو بے قصور شجاعت علی راشد کو ذہنی اذیت پہنچاکر مسلسل ڈیڑھ سال سے معاشی طور پر نقصان پہنچاتے ہوئے اسے ملازمت سے برطرف کیا گیا ہے تو اس کے لئے بھی آواز اٹھائی جائے گی اور انصاف دلایا جائے گا۔

یہ کیسا انصاف ہے؟
ڈاکٹر شجاعت علی راشد کو ناکردہ جرم کی سزا کیوں؟
ڈاکٹر شجاعت علی راشد کو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی ملازمت سے برطرف کردینے کے احکامات کو یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کردیا گیا ہے۔ ان کے خلاف جو الزامات عائد کئے گئے ہیں‘ ان میں کہا گیا ہے (1)ڈاکٹر محمد شجاعت علی ڈپٹی ڈائرکٹر CPDUMT نے اردو روزنامہ منصف کے ایک سینئر صحافی کو ’’مانو‘‘ کے عہدیداروں کے دورہ تانڈور سے متعلق ایک اہانت آمیز منفی اثرات کے حامل خبر شائع کرنے کی ترغیب دی اور اس کے لئے اپنے اثرات و رسوخ کا استعمال کیا جس سے مختلف فرقوں کے درمیان فرقہ ورانہ منافرت پیدا ہوسکتی تھی اور مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان امن اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی متاثر ہوسکتی تھی۔ (2) ڈاکٹر محمد شجاعت علی نے منصف کے سینئر صحافی کو بتایا کہ روزنامہ سیاست بھی یہی خبر شائع کررہا ہے‘ اگر منصف نے یہ خبر شائع نہیں کی تو سیاست بازی لے جائے گا۔ سیاست میں یہ خبر 16؍اگست 2014 کو شائع ہوئی۔ ڈاکٹر شجاعت علی نے سیاست اخبار کو بھی اس خبر کی اشاعت کے لئے اپنے اثرات کا استعمال کیا جس سے مختلف فرقوں کے درمیان فرقہ ورانہ منافرت پیدا ہوسکتی تھی اور مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان امن اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی متاثر ہوسکتی تھی۔ (3)2012ء میں بھی ڈاکٹر محمد شجاعت علی نے ای ٹی وی اردو کے سینئر رپورٹر کو یونیورسٹی سے متعلق نقصان پہنچانے والا مواد فراہم کیا تھا۔ (4)ڈاکٹر محمد شجاعت علی کے مذکورہ بالا اقدامات معاشرے میں فرقہ ورانہ منافرت اور تشدد کا باعث ہوسکتا تھا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جن دو اخبارات کا انکوائری آفیسر نے اپنی رپورٹ میں حوالہ دیا اور جس کی بنیاد پر ایگزیکٹیو کونسل نے ڈاکٹر شجاعت علی کو ان کی ملازمت سے 12سال پہلے ہی برطرف کردیا۔ ان دو اخبارات کی جانب سے تحریری طور پر تردید کی جاچکی ہے کہ ڈاکٹر شجاعت علی نے نہ تو کوئی خبر شائع کروانے کی بات کی اور نہ اس ضمن میں اس کا کوئی رول ہے۔ اُس وقت منصف سے وابستہ سینئر صحافی طاہر رومانی نے سخت الفاظ میں دو علیحدہ علیحدہ موقعوں پر مکتوبات وائس چانسلر کے نام پر روانہ کئے اور سیاست کے نیوز ایڈیٹر جناب عامر علی خان نے بھی اپنے دستخط کے ساتھ تردیدی بیان جاری کیا جو اس صفحہ پر آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ کیا ایگزیکٹیو کونسل کے ارکان کو سیاست اور منصف کے مکتوبات کی نقل پیش نہیں کی گئی یا پھر قانون کی دیوی کی طرح یہ ارکان بھی اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر صرف اپنے حکام بالا کے احکام پر سرہلا رہے تھے۔ احکامات برطرفی پڑھ کر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ کس طرح اپنی اَنا کی صلیب پر ایک بے قصور کو چڑھادیا جاتا ہے۔ کس طرح چند مفاد پرست عناصر اپنے حکام بالا کی خوشنودی کے لئے دوسروں کے روزگار سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ ایک شجاعت علی کر برطرف نہیں کیا گیا بلکہ اس کے پورے خاندان کو سزا دی گئی ہے۔ کسی کو کسی سے روزگار چھیننا، اسے معاشی طور پر پریشان کرنا روئے ارض کا سب سے بڑا گھناؤنا جرم ہے اور وہی کرسکتا ہے جس میں خوف خدا نہیں ہوتا۔ کیوں کہ جو خدا سے ڈرتا ہے وہ اَناپرست نہیں ہوتا۔ اردو یونیورسٹی میں جو کچھ ہورہا ہے وہ زیادہ دن چلنے والا نہیں ہے۔ ظلم کی ٹہنی ٹوٹ جاتی ہے۔ ناانصافی کے خلاف آواز بلند ہوچکی ہے۔ اور اُس وقت تک اس کی باز گشت سنائی دیتی رہے گی جب تک مظلوم کے ساتھ انصاف نہیں ہوجاتا۔ اور جن عناصر نے ملازمین کے روزگار سے کھلواڑ کیا وہ اللہ رب العزت کے قہر کا انتظار کرے اس کے پاس دیر ہے اندھیر نہیں۔ سزا انہیں نہیں ملے گی ان کی نسلوں کو ملے گی۔ کیوں کہ ایک شخص کا روزگار چھین کر اس کے ارکان خاندان کو ہر طرح سے پریشان کیا گیا ہے۔ یہ عہدے آج ہے کل نہیں رہیں گے اقتدار کل باقی نہیں رہے گا تب ان کے مظالم ان کی ناانصافیوں ان کا سوتے جاگتے پیچھا کریں گی اور انہیں نہ تو توبہ کا موقع ملے گا نہ پچھتانے کا۔

بذریعہ ’’گواہ اردو ویکلی‘‘ حیدرآ

Dr. Syed Fazil Hussain Parvez



 


اپنا تبصرہ لکھیں