فضیلت ماہ ذوالحجہ اور قربانی کے فضائل ومسائل

علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایم اے سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال
اللہ تعالیٰ نے دن مہینے اور سال اس لئے بنائے کہ انسان اپنے معاملات زندگی اور تفکرات اخروی کا حساب و کتاب رکھ سکے۔تخلیق میں تمام دن،مہینے اور سال برابر ہیں مگر فضیلت کے اعتبار سے بعض دنوں کو دنوں پر بعض مہینوں کو مہینوں پر اور بعض سالوں کو سالوں پر فضیلت دی گئی ہے۔
اسلامی سال کا بارہواں مہینہ ذوالحجہ ہے۔اس کی وجہ تسمیہ ظاہر ہے کہ اس ماہ میں لو گ حج کرتے ہیں اور اس کے پہلا عشرہ کا نام قرآن مجید میں ”ایام معلومات“رکھا ہے یہ دن اللہ کریم کو بہت پیارے ہیں۔اس کی پہلی تاریخ کو سیدہ عالم حضرت خاتون جنت زفاطمۃالزاہرہ رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا حضرت شیر خدا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ ہوا۔
اس کی آٹھویں تاریخ کو یوم ترویہ کہتے ہیں۔کیوں کہ حجاج اس دن اپنے اونٹوں کو پانی سے خوب سیراب کرتے تھے۔تاکہ عرفہ کے روز تک ان کو پیاس نہ لگے۔یا اس لئے اس کو یوم ترویہ(سوچ بچار)کہتے ہیں۔کہ سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیٰ نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آٹھویں ذی الحجہ کو رات کے وقت خوا ب میں دیکھا تھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے حکم دیتا ہے کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر۔ تو آپ نے صبح سوچا اور غور کیا کہ آیا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے۔اس لئے اس کو یوم ترویہ کہتے ہیں۔
ذوالحجہ کی نویں تاریخ کو عرفہ کہتے ہیں۔کیونکہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام جب نویں تاریخ کی رات وہی خواب دیکھا تو پہچان لیا کہ یہ خواب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔اسی دن حج کا فریضہ سر انجام دیا جاتا ہے اور دسویں تاریخ کو یوم نحر کہتے ہیں کیونکہ اسی روز سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی صورت پیدا ہوئی۔اور اسی دن عام مسلمان قربانیاں ادا کرتے ہیں۔
اس کے بعد گیارہویں۔بارہویں۔تیرہویں کے دنوں کو ایام تشریق کہتے ہیں اور اس ماہ کی بارہویں کو حضور سراپا نور شافع یوم النشور ﷺ نے سیدنا حضرت علی المرتضیٰ شیرخدا رضی اللہ عنہ سے بھائی چارہ قائم کیا تھا۔
ماہ ذی الحجہ کی فضیلت:
ذوالحجہ کا مہینہ ان چار برکت اور حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے اس مبارک مہینہ میں کثرت نوافل،روزے،تلاوت قرآن،تسبیح و تہلیل،تکبیر و تقدیس اور صدقات و مبرات وغیرہ اعمال کا بہت بڑا ثواب ہے اور بالخصوص اس کے پہلے دس دنوں کی اتنی فضیلت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عشرہ کی دس راتوں کی قسم یاد فرمائی ہے۔ارشاد ہوتا ہے:والفجر 0ولیال عشر 0والشفعی والوتر 0والیل اذا یسر0قسم ہے مجھے فجر کی عید قربان کی اور دس راتوں کی جو ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں اور قسم ہے جفت اور طاق کی جو رمضان مبارک کی آخری راتیں ہیں اور قسم ہے اپنے حبیب ﷺ کے معراج کے رات کی۔(سورۃ الفجر30)
اس قسم سے پتہ چلتا ہے کہ عشرہ ذی الحجہ کی بہت بڑی فضیلت ہے۔اسی طرح کی فضیلت سے کتب احادیث لبریز ہیں۔ چند مبارک حدیثیں پیش خدمت ہیں۔
سیدہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول خدا حبیب کبریا ﷺ نے فرمایا کہ جس وقت عشرہ ذی الحجہ داخل ہو جائے اور تمہار بعض آدمی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں تو چاہیے کہ بال اور جسم سے کسی چیز کو مس نہ کرے اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا کہ بال نہ کترائے اور نہ ناخن اتروائے۔اور ایک روایت میں ہے کہ جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھ لے اور قربانی کا ارادہ ہو تو نہ بال منڈائے اور نہ ناخن ترشوائے۔ (رواہ مسلم،مشکوٰۃ 127)
سیدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ نیک عمل اس میں ان ایام عشرہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ محبوب ہو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں۔فرمایا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں مگر وہ مرد جو اپنی جان اور مال لے کر نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا۔(سب کچھ قربان کر دیا)
(رواہ البخاری، مشکوٰۃ128)
سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشادفرمایا کہ کوئی دن زیادہ محبوب نہیں اللہ تعالیٰ ان کی طرف کہ عبادت ان میں کی جائے۔ ان دس دنوں ذی الحجہ سے ان دنوں میں ایک دن کا روزہ سال کے روزوں کے برابر ہے اور ان ایک رات کا قیام سال کے قیام کے برابر ہے۔(مشکوٰۃ 128،غنیۃ الطالبین جلد 2صفحہ25)
یہی وجہ تھی کہ سیدنا حضرت سعد بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دس راتوں میں چراغ نہ بجھاؤ اور خدام کو ان راتوں میں جاگنے اور عبادت کرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔(غنیۃ الطالبین جلد 2صفحہ 25)
ذوالحجہ کے پہلے نو دنوں کے روزے:ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کے پہلے نو دن روزہ رکھنا بڑا ثواب ہے۔ ام المومنین سیدہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔
چار چیزوں کو نبی کریم ﷺ نہیں چھوڑتے تھے عاشورہ کا روزہ اور (ذوالحجہ) کے دس دن یعنی پہلے نو دن کا روزہ اور ہر ماہ کے تین دن کا روزہ۔نماز فجر سے قبل دو رکعتیں۔(مشکوٰۃ 180)
حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں عشرہ ذی الحجہ کی راتوں میں ایک بصرہ کے قبر ستان میں تھا۔تو میں نے ایک قبر سے نور کی شعائیں نکلتی دیکھیں۔یہ دیکھ کر میں بڑا حیران ہو ا۔ اتنے میں آواز آئی اے سفیان ثوری! اگر تو نے بھی نو دن ذی الحجہ کے روزے رکھے تو تیری قبر سے بھی اسی طرح نور نکلے گا۔ّ(نزہۃ المجالس جلد1صفحہ 144)
سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عہد رسالت میں ایک شخص سماع غنا۔(گانا بجانا) کو دوست رکھتا تھا مگر جب ذی الحجہ کا چاند نظر آجاتا تو روزے رکھنا شروع کر دیتا محبوب کبریا ﷺ نے اس شخص کو بلا کر پوچھا کہ تو کس وجہ سے ان دنوں کا روزہ رکھتا ہے! اس نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ یہ دن حج کے دنوں میں سے ہیں۔مجھے یہ بات پسند آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے حاجیوں میں شریک فرمائے۔
سید الانبیاء و المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تجھے ہر دن کے روزے کے بدلہ میں ایک سو مسلمان غلاموں کو آزاد کرنے اور سو اونٹ کے صدقہ کرنے اور سو گھوڑے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینے کا ثواب ملے گا۔اور یوم ترویہ کے روزے کے بدلے ایک ہزار غلام آزاد کرنے اور ایک ہزار اونٹ صدقہ کرنے اور ایک ہزار گھوڑوں کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینے کا ثواب ملے گا۔
اور عرفہ کے روزے کے بدلے میں دو ہزار غلاموں کو آزاد کرنے اور دو ہزار اونٹ کے صدقہ کرنے اور دو ہزار گھوڑوں کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینے کا ثواب ملے گا۔ایک سال گزشتہ اور سال آئندہ کے روزوں کا ثواب بھی ملے گا۔(غنیۃ الطالبین جلد 2صفحہ 25)
عرفہ کا روزہ:
ان دنوں میں عرفہ کا دن بڑامعظم دن ہے کہ عرفہ کا روزہ ایک سا ل گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے مگر یہ غیر محرم کے حق میں ہے اور محرم عرفہ کے دن روزہ نہ رکھے تاکہ مناسک حج ادا کرنے میں سستی نہ ہو۔(ماثبت من السنۃ صفحہ179)
عید قربان:
یوں تو ذوالحجہ کا سارا عشرہ ہی نورٌ علیٰ نور ہے اور اس میں ہر نیک عمل کا ثواب بہت ملتا ہے۔مگر دسویں ذوالحجہ کا دن سب سے زیادہ معظم ہے۔خدا ئے بزرگ و برتر نے اس دن کی فجر کی قسم کھائی ہے۔والفجر مجھے فخر عید قربان کی قسم۔اس دن میں ہر ایک نیک عمل بڑی فضیلت رکھتا ہے۔مگر اس روز سب سے زیادہ محبوب عمل قربانی کرنا ہے۔محبوب رب العالمین ﷺ فرماتے ہیں کہ:
صحابہئ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین نے رسالت مآب ﷺ کی خدمت میں عرض کیا۔یا رسول اللہ ﷺ یہ قربانیاں کیسی ہیں۔فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔صحابہئ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہمیں اس میں کیا ثواب ملے گا؟ فرمایا ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔صحابہئ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ صوف میں کیا ثواب ہے۔فرمایا صوف کے ہربال میں ایک نیکی ملے گی۔
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ قربانی کرنا سب سے زیادہ فضیلت والا عمل ہے۔ہر مسلمان مرد اور عورت صاحبِ استطاعت پر واجب ہے کہ وہ اس دن قربانی کرکے دربار الہٰی سے بہت بڑا ثواب حاصل کرے۔

اپنا تبصرہ لکھیں