گاؤں **نورپور** میں ایک لڑکا رہتا تھا، نام تھا **زید**۔ زید ایک نہایت ذہین اور چالاک لڑکا تھا، لیکن اس کی ایک بری عادت تھی _ وہ جھوٹ بہت بولتا تھا۔ چھوٹے جھوٹ، بڑے جھوٹ، باتوں میں مرچ مصالحہ لگا کر مزے لیتا، اور بعض اوقات دوسروں کو پریشانی میں ڈال دیتا۔
اس کے ماں باپ اکثر سمجھاتے،
“بیٹا زید، جھوٹ بولنے سے وقتی فائدہ ہو سکتا ہے، لیکن انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے۔“
مگر زید ہنستا اور جواب دیتا،
“امی! اب تو جھوٹ بھی آرٹ ہے۔ سچ بول کر کیا ملتا ہے؟“
نورپور کے آس پاس کے جنگل میں کبھی کبھار شکاری آتے اور جانوروں کا شکار کرتے۔ ایک دن ایک شکاری، قاسم خان، گاؤں میں آیا۔ وہ بڑا چالاک اور خطرناک انسان تھا۔ اس نے زید کی عادتوں کو بھانپ لیا اور سوچا،
“یہ لڑکا میرے کام آ سکتا ہے۔“
قاسم خان نے زید سے دوستی کی، تحفے دیے، اور پھر ایک دن بولا:
“زید میاں، تمہیں ایک خاص کام دینا ہے۔ بس ایک چھوٹا سا جھوٹ بولنا ہے۔“
زید فوراً تیار ہو گیا،
“بس جھوٹ؟ وہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔“
شکاری نے زید کو کہا کہ گاؤں والوں سے جھوٹ بول کر کہنا ہے کہ جنگل میں کوئی خزانہ چھپا ہوا ہے، تاکہ سب لوگ وہاں جائیں اور وہ شکاری آسانی سے جانوروں کو پکڑ لے۔
زید نے گاؤں کے چوراہے پر کھڑے ہو کر اعلان کیا،
“میں نے جنگل میں ایک سنہری صندوق دیکھا ہے۔ خزانہ بھرا پڑا ہے، سچ کہہ رہا ہوں!“
گاؤں والے حیران بھی ہوئے، خوش بھی، اور کچھ دیر میں تقریباً آدھا گاؤں جنگل کی طرف روانہ ہو گیا۔ قاسم خان نے شکار شروع کر دیا، ہرن، تیتر، اور نایاب پرندے پکڑ لیے۔
شام کو جب گاؤں والے خالی ہاتھ واپس آئے اور کچھ بزرگوں نے زید سے سوال کیا تو وہ ٹال گیا۔
“ارے بس، شاید خزانہ کسی اور نے پہلے لے لیا ہو گا۔“
مگر ایک چھوٹا لڑکا، بلال، جو زید کا ہم عمر تھا، سب کچھ دیکھ چکا تھا۔ اس نے سب کو بتایا کہ یہ سب زید کا جھوٹا منصوبہ تھا۔
گاؤں کے لوگ غصے سے بھر گئے۔ وہ شکاری کو پکڑنے کے لیے دوبارہ جنگل گئے اور قاسم خان کو رنگے ہاتھوں جانوروں کے ساتھ پکڑ لیا۔ اسے پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
زید کو سب کے سامنے بلایا گیا۔ گاؤں کے بزرگ، خاص کر چوہدری نذیر، نے سختی سے پوچھا،
“زید، تم نے ایسا کیوں کیا؟ تمہیں تو ہم سب مانتے تھے!“
زید کا سر شرم سے جھک گیا۔ اس نے روتے ہوئے سب کے سامنے سچ بتایا۔
“مجھے لگا جھوٹ سے فائدہ ہوتا ہے… میں غلط تھا۔“
### **حصہ پنجم: توبہ اور نیا آغاز**
چوہدری نذیر نے کہا،
“بیٹا، ہم انسان ہیں، غلطی ہو جاتی ہے۔ لیکن سچائی کا دامن پکڑو تو عزت ملتی ہے، ورنہ جھوٹ انسان کو برباد کر دیتا ہے۔„
زید نے سب سے معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ آئندہ کبھی جھوٹ نہیں بولے گا۔
وقت گزرا، زید نے اپنی بات نبھائی۔ وہ اسکول میں سب سے زیادہ ایماندار طالب علم بن گیا۔ اسے اسکول کے سالانہ فنکشن میں “سچائی کا سفیر“ کا ایوارڈ بھی ملا۔
جب وہ اسٹیج پر ایوارڈ لینے گیا تو سب نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔
زید نے مائیک پر صرف اتنا کہا:
“سچ بولنے سے دل ہلکا ہوتا ہے، اور دنیا کا اعتماد بھاری۔“
سبق:
جھوٹ وقتی طور پر فائدہ دے سکتا ہے، لیکن اس کی بنیاد کھوکھلی ہوتی ہے۔ سچائی ایک مضبوط درخت کی مانند ہے، جو وقت کے طوفانوں میں بھی اپنی جگہ قائم رکھتا ہے۔

Recent Comments