دماغستان —قسط 6: گونجتے لمحے

قسط 6: گونجتے لمحے

Post-Traumatic Stress Disorder (PTSD)

تھیم: گزرے لمحوں کے سلگتے زخم

کرداروں کا تعارف

فراز فلیش – 35 سال
سابق ریسکیو اہلکار۔ ہر آواز، ہر سایہ اُسے کسی پرانے منظر کی طرف لے جاتا ہے۔ نیند اور سکون دونوں سے دور، ہمیشہ چوکس۔

آصفہ آہٹ – 30 سال
حادثے کی زندہ یادگار۔ وجود محفوظ، مگر ذہن قید۔ خود سے ڈری ہوئی، ہر لمحہ جیسے کوئی انہونی ہو جائے۔

ڈاکٹر زویا ذی شعور – 40 سال
شعور شفا خانہ کی مہربان اور باریک بین ماہر نفسیات۔ ہر زخم کو لفظوں سے سہلاتی ہیں۔

ڈاکٹر گوگلی – 35 سال
لطیفے بناتے بناتے ذہنی صحت کو سمجھانے کی ناکام کوشش کرتا ہے، مگر کہیں کہیں بات دل کوچھو جاتی ہے۔

چندہ چغلی – 55 سال
محلے کی آنکھ، کان اور زبان۔ ہر بات میں چھپی اداسی پر مزاح کے پردے ڈالتی ہے۔

دھیان کلنٹن – 25 سال
خاموش مبصر۔ ہر کہانی سے سچ کشید کرتا ہے، اور آخر میں سوچ کی راہ دکھاتا ہے۔

منظر 1: محلے کا چبوترا – صبح

(فراز ہاتھوں میں چائے کا کپ، مگر نظر افق پر گم)

فراز فلیش:
کل رات پھر وہی خواب… وہی گلی، وہی آواز…
کوئی کہہ رہا تھا، “بھائی، مجھے بچا لو”
مگر میں… صرف دیکھ رہا تھا

چندہ چغلی (چائے ہلاتے ہوئے):
فراز بھائی، آپ تو لگتا ہے خوابوں میں بھی ریسکیو والے ہی بن کر رہ گئے ہو۔ دماغ کو کبھی چھٹی دیا کریو نا، یہ تو ہم سے بھی زیادہ ڈیوٹی پر ہے۔

(آصفہ آہستہ آتی ہے، قدم دھیرے جیسے زمین پر کچھ ٹوٹ نہ جائے)

آصفہ آہٹ:
رات کو چھت پر گئی،سوچا ہوا کھلی ہے تو دل بھی کھل جائے
مگر اوپر بس خاموشی تھی… اور وہی آہٹ
جو ہر بار پیچھے سے آتی ہے۔

منظر 2: شعور شفا خانہ – دوپہر

ڈاکٹر زویا (پُرسکون آواز میں):
فراز، جب وہ لمحے آتے ہیں، آپ کا جسم کیا محسوس کرتا ہے؟

فراز:
پہلے پسینہ آتا ہے
پھر دل ایسے دھڑکتا ہے جیسے ایمبولینس کا سائرن ہو
اور آنکھیں… بند نہیں ہوتیں

ڈاکٹر زویا:
اور دل؟ کیا وہ اب بھی وہی ذمہ داری کا بوجھ محسوس کرتا ہے؟

فراز فلیش (سر جھکا کر):
ہاں…
ایسا لگتا ہے جیسے میں جو بچا نہ سکا
وہ آج بھی مجھ میں مرا ہوا ہے

ڈاکٹر گوگلی (بیچ میں بولتے ہوئے):
“PTSD کا مطلب؟
پچھلا تماشا روز دیکھنا!”
اب بھائی، Netflix بند کرو… حقیقت Live ہے!

آصفہ (نرمی سے، نظریں زمین پر):
میری حقیقت بھی وہی دن ہے
کار کا شیشہ، آواز کا ٹوٹنا، ایک لمحے میں سب بدل گیا
مجھے بچا لیا گیا مگر باقی سب فنا ہو گیا

ڈاکٹر زویا:
جب درد اندر رہ جائے، تو وہ شور بن جاتا ہے
اور شور… سکون کے دروازے بند کر دیتا ہے

آصفہ:
کیا وہ دروازے کھل سکتے ہیں، ڈاکٹر صاحبہ؟

ڈاکٹر زویا:
جی، وقت، توجہ اور لفظوں کی چابی سے
ہم ان دروازوں کو کھول سکتے ہیں
نہیں تو یہ زخم… سلگتے رہتے ہیں

فراز:
میرا زخم جلتا نہیں، جلاتا ہے
یادیں صرف آتی نہیں… کاٹتی ہیں

ڈاکٹر زویا:
لیکن یادیں صرف تکلیف نہیں ہوتیں
اگر ان کو قبول کر لیا جائے
تو وہ آپ کی طاقت بن سکتی ہیں
زخم دکھا سکتے ہیں… کہ آپ نے کیا جھیلا

منظر 3: چبوترا – شام

(فضا میں ہلکی ہوا، مگر چہروں پر بوجھ)

چندہ چغلی:
آصفہ کی خاموشی تو اب ڈکشنری میں آ جائے گی
“خاموشی: وہ کیفیت جب دل چیخے، مگر زبان نہ ہلے”

فراز:
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں
اگر وہ دن نہ ہوتا…
تو کیا میں اب ہنستا؟

آصفہ:
میرا وقت وہیں رک گیا ہے
میں آگے چلی ہوں… بس وقت میرے ساتھ نہیں چلا

ڈاکٹر گوگلی (فلسفیانہ طنز میں):
“جب دماغ بار بار وہی لمحہ repeat کرے
تو rewind کا بٹن توڑ دینا چاہیے”

ڈاکٹر زویا (دھیرے مگر مضبوط لہجے میں):
زندگی کی ویڈیو کو آگے بڑھانے کے لیے
ضروری ہے کہ ہم ماضی کو تسلیم کریں
اس سے لڑیں نہیں… سمجھیں

شعور کوٹ – ڈاکٹر زویا ذی شعور

“PTSD وقت کی وہ راکھ ہے
جو وقتاً فوقتاً آنکھ میں چبھتی ہے
مگر اگر ہم آنکھ بند نہ کریں
تو ہم دیکھ سکتے ہیں…
کہ صرف راکھ ہے، مگر آگ بجھ چکی ہے”

 دھیان کلنٹن

“کچھ لمحے دھڑکنوں کی طرح دل میں سما جاتے ہیں۔
زبان خاموش بھی ہو تو دھڑکنیں شور مچاتی ہیں۔
اصل علاج… آوازوں کو دبانا نہیں
انہیں سمجھ کر سننا ہے”

اپنا تبصرہ لکھیں