دماغستان —قسط 4: انتہاؤں کا جھولا

قسط 4: انتہاؤں کا جھولا
Bipolar Disorder
تھیم: دھوپ میں برسات

کرداروں کا تعارف

کامران کنفیوژن – 30 سالہ گرافک ڈیزائنر، بے ترتیب توانائی اور گہرے سناٹوں کے بیچ جھولتا ہوا
رابعہ رولر کوسٹر – 35 سالہ سابق موٹیویشنل اسپیکر، اندرونی اتھل پتھل کی قیدی
ڈاکٹر زویا ذی شعور – 40 سالہ ماہر نفسیات، گہری مگر سادہ زبان میں دل جیتنے والی
ڈاکٹر گوگلی – 35 سالہ ٹک ٹاک دانشور، موقع بے موقع مزاح، مبالغہ اور مشورہ
چندہ چغلی – 55 سالہ محلے دار، ہر بات کا مرچ مصالحہ تیار
دھیان کلنٹن – 25 سالہ کم گو، گہری سوچوں والا نوجوان

منظر 1: محلے کا چبوترا – صبح

(چندہ چغلی دروازے کے پاس جھاڑو لگا رہی ہے، ڈاکٹر گوگلی ٹک ٹاک ریکارڈ کر رہا ہے)

کامران کنفیوژن (بجلی کی طرح داخل ہوتا ہے):
خالہ چندہ! رات تین بجے بیٹھا ایک مکمل لوگو بنایا—صرف چمک، رنگ اور جذبہ!
اب ایک پوری برانڈنگ سیریز شروع کرنے لگا ہوں: “خود سے خود کی شناخت!”
“ایموشن ڈیزائننگ” سسٹم سوچا ہے
ہر احساس کی visual language ہوگی
پیار، اداسی، اُمید — سب گرافکس میں بدل دوں گا!
چندہ چغلی (آنکھیں گھما کر):
ہاں ہاں، تین دن پہلے تو تُو خود کو “ادھورا خاکہ” کہہ رہا تھا
اب نیا “شناختی انقلاب”؟
کبھی کچھ، کبھی کچھ؟ تیری تو سوچیں بھی وٹس ایپ گروپ کی طرح mute رہتی ہوں گی!

ڈاکٹر گوگلی (کیمرہ گھماتے ہوئے):
“جب دماغ 5Gپر ہو، تو دل کا وائی فائی اکثر disconnect ہو جاتا ہے! اورجب جذبات WiFi کی طرح fluctuate کریں
تو بندے کو ری سٹارٹ کرنا ضروری ہے!”
(رابعہ ایک طرف چپ چاپ بیٹھی ہے)

چندہ چغلی (جھک کر رابعہ سے):
اوہو بی بی، آج پھر سوچوں میں گم؟
کبھی تمہاری آواز سے اسٹیج گونجتا تھا
اب اتنی خاموشی؟ کوئی نیا اسٹیٹس ہے کیا؟

فلیش بیک: رابعہ کا ماضی

(روشنیوں سے سجی محفل، رابعہ اسٹیج پر)

رابعہ رولر کوسٹر:
“گرنے سے مت ڈرو، گر کے اٹھنا وہی سیکھتا ہے جس کے ارادے اونچے ہوں!”
(تالیاں، نعرے، کیمروں کی چمک)

(اسی لمحے، منظر بدلتا ہے — وہی رابعہ، اب خاموش، آنکھوں میں تھکن)

منظر 2: شعور شفا خانہ – دوپہر

ڈاکٹر زویا ذی شعور:
کامران، کیسا محسوس ہو رہا ہے ان دنوں؟

کامران کنفیوژن:
ڈاکٹر صاحبہ، کبھی دل کرتا ہے سب کو بلا کر ایک giant mural بنا دوں…
اور کبھی لگتا ہے صرف دیواریں دیکھتا رہوں
رنگ تو ہوں، پر نظر دھندلی ہو

رابعہ رولر کوسٹر (آہستہ):
کبھی لگتا ہے میں سب کچھ ہوں
اور کبھی، کچھ بھی نہیں
میرے اندر جیسے آوازیں ہیں… پر کوئی سننے والا نہیں

ڈاکٹر گوگلی (بیچ میں):
“یہ جذباتی جھولا تو ایسا ہے، جیسے amusement park ہو…
پر exit کا راستہ گم ہو گیا ہو!”

ڈاکٹر زویا ذی شعور:
یہ کیفیت Bipolar Disorder کہلاتی ہے
کبھی بے پناہ توانائی، کبھی گہری خاموشی
اس کا علاج ممکن ہے، بس اس کو دشمن نہ سمجھو
یہ تمہاری کہانی کا ایک باب ہے… پوری کتاب نہیں

منظر 3: چبوترا – شام

چندہ چغلی:
بیٹا دھیان، کچھ تو کہو
یہ آجکل سب کے دماغ میں موسم ہی الٹے چل رہے ہیں

دھیان کلنٹن (آسمان کی طرف دیکھ کر):
“جب اندر بارش ہو اور باہر دھوپ…
تو انسان چھتری نہیں، پناہ ڈھونڈتا ہے
اور کبھی وہ پناہ، صرف ایک جملے میں مل جاتی ہے”

کامران کنفیوژن:
میں چاہتا ہوں کچھ نیا کروں
مگر جیسے دل کسی اور کے ہاتھ میں ہو، اور وہ سائلنٹ پر ہو

رابعہ رولر کوسٹر (ہلکی سی مسکراہٹ):
کل شاید بول سکوں
یا شاید لکھوں
یا شاید… بس سنوں

شعور کوٹ – ڈاکٹر زویا ذی شعور

“یہ جو جذبات کی شدت ہے، یہ تمہاری پیچیدگی نہیں،
یہ تمہاری گہرائی ہے
زندگی جذبات کا جھولا ہے،
لیکن توازن ہی اس جھولے کی زنجیر ہے۔
نہ خوشی میں خود کو کھو دو، نہ غم میں دفن ہو جاؤ۔
سیکھو کہ کس وقت رکنا ہے، اور کب چلنا ہے—
اسی میں ذہنی سکون کا راز ہے۔”


– دھیان کلنٹن

“دل اگر آسمان ہو، تو ہر جذبہ ایک بدلتا موسم ہے۔
پر اصل عقل یہ ہے کہ تم ایسے رہو کہ دھوپ بھی تمہاری ہو، اور سایہ بھی تم سے ہو۔”

اپنا تبصرہ لکھیں