یہ ناممکن ہے کہ ہم آپنے شہیدوں کو بھول جایں!

www.doorofpeace.com                                   zaib Mahsud

پھولوں کےشہرپشاور کی سر  رزمین سے دہشت گردی کوختم کرکے دم لینگے۔ ہم اپنے وطن کو امن کا گہوارہ بنائیں گے چاہے کتنی ہی مزید جانوں کی قربانی دینی پڑے لیکن ہم ٓپنے بچوں کہ خون کو رایئگاں نہں جانے دینگے۔

اے میرے وطن کہ غمزدہ اوردلفگار لوگوں ہم کو ہمت نہیں ہارنی کیونکہ اگر ہم ہمت ہار گئے تو ہمارے معصوم شہداء ہم کو کبھی معاف نہیں کرینگے۔ ہمیں اپنے نام نہاد حکمرانوں کی طرح چند دن بلند بانگ دعوے کرنے اور پھر الزیئمر کہ مریضوں کی طرح بھول

جانے کی بے ضمیری سے خدا بچائے �آمین !

کیونکہ ہمارے ہی بے حس نا عاقیبت اندیش حکمرانوں نے اس وطنِ عزیز کہ آدھے حصے کو گنوا دیا اور انتہائی شرم اور افسوس

کا مقام ہے کہ اتنے بدترین نقصان پر بھی کسی ایک کو بھی زمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکا اور نہ ہی کوئی سبق سیکھا کیونکہ آج ہمارے بلوچستان ۔کراچی اور فاٹا کی صورتحال ویسی ہی سلگ رہی ہے جیسے ۱۹۷۱ میں مشرقی پاکستان کی تھی۔۔۔

اگر بحثیت قوم ہوش نہ لیا تو ہمارا انجام بھی شام اور عراق سے بھی بدتر ہوگ۔

آپ اُن ملکوں کے لوگوں کو دربدر دیکھ ہی رہے ہو. بے وطنی کا عذاب کیا ہے کوئی فلسطینیوں اور کشمیریوں سے پوچھے۔

اس لیے ہم کو ہر ایک مرد ، عورت اور بچوں کو اس وطن عزیز کے لیے خود اپنی زمہ داری نبھانی ہوگی ہماری خوش نصیب ھیں کہ ھمارے پاس دنیا کی بہترین فوج ہے او ر انتہائی مثالی عوام کہ جو ضرورت پڑنے پر اپنے ملک کہ لیے تن  من اور دھن کو لٹانے کے لیے ایک لمحہ بھی نہیں سوچے گی. کیونکہ اس کا ثبوت کئی بار دے چکی ہے

ھمارے وطن میں جو دہشت گردی کا عذاب پچھلے ۱۳ سال سے رقص کناں ہے اُس کے ذمہ دار کون تھے یا ہیں اس حساب کتاب میں پڑنے سے کچھ حاصل وصول نہیں ہوگا۔ ہمارا جو نقصانِ عظیم ہونا تھا وہ ۵۰ ہزار لوگ اور ہماری روح میں اُتر جانے والا درد یعنی پشاور میں سکول کہ معصوم بچوں کا قتلَ عام یہ سب واپس نہیں آسکتے ہیں اور نہ ہی ہم  انھیں بھولنے کا گناہ کر سکتے ہیں۔۔۔

لہذا اب ہم میں سے ہر ایک کو اپنے ارد گرد ماحول پر نظر رکھنی ہوگی کسی بھی مشکوک شخص اور حالات میں مخصوص نمبروں پر اطلاع دینی

ہوگی اور ناگزیر حالات میں جان کی پرواہ کیے بغیر اپنے لوگوں اور وطن کو بچانا ہوگا کیونکہ زندگی کا حاصل ہی تو یہی ہے کیونکہ!!!

‘‘ میرے محبوب وطن تجھ پہ اگر جان ہو نثار

میں یہ سمجھونگا ٹھکانے لگاسرمایہِ تن ‘‘

کیونکہ پاکستان ہے تو شناخت ہے اور اگر امن ہے تو سکون اور جان اور مال ہی نہیں محفوظ بلکہ دنیا میں عزت بھی ہوگی ورنہ آج دنیا

میں پاکستان کا جو امیج ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے اس لیے آج کہ بعد ہم اپنے ملک کے لیے اپنے گھر کی طرح اس کی حفاطت کے لیے اس کی ناموس کہ لیے صرف عہد ہی نہیں عملی طور پر تیار ہو جائیں۔

اس کہ علاوہ دوسری اہم بات یہ کہ دنیا میں کوئی بھی ایسی قوم نہیں جو اپنی تاریخ کہ اہم واقعات کی یادگار بنا کر نہ صرف خود سبق سیکھتی ہیں بلک اپنی آئیندہ نسلوں کہ لیے بھیایک مسلسل درس چھوڑ جاتی ہیں۔ اس میں صرف کامیابی کی شرط نہیں وہ اپنی ناکامیوں کی بھی تاریخ دیکھاتی ہیں کہ آنی والی نسلیں وہ غلطیاں نہ کریں جبکہ ہمارے ہیں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کہ نہ صرف خود کو بلکہ آیندہ نسلوں کو بھی اندھیرے میں رکھتی ہیں جس کی سب سے بڑی مثال مشرقی پاکستان کا المیہ تھا میرا اگر اختیار ہوتا تو اور نہیں ایک دیوار پر ۱۹۴۷ کا مکمل نقشہ بنا کر اُس میں مشرقی پاکستان والے حصہ پر وہ سیاھی مل دیتا جو کہ اُس وقت کہ نام نہاد لیڈروں کہ منہ پر لگانی چاہیے تھی اور بلکل سچ تاریخ میں کہانی لکھی جاتی کہ ھمارے کل کہ معمار اُن غلطیوں سے سبق سیکھتے۔۔۔

بہرحال اب اصل مقصد کی طرف آتے ہیں کہ جس کہ لیے یہ ساری تمہید دینی ضروری تھی۔ پشاور میں ہمارے معصوم بچوں کا جو قتلِ عام ھوا

وہ ہمارے دلوں کا ہی نہیں بلکہ روح کا بھی زخم ہے اور اس کو ہم تو جیتے جی بھلا نہیں پائینگے کیونکہ ہم حکمرانوں کی طرح الزائیمر کہ مریض نہیں ہیں اور نہ ہی ہم اپنے شہداء کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دینگے اس لیے میں اپنے تمام پاکستانیوں سے اپیل کرتی ہو کہ وہ اس مہم میں ہمارا ساتھ دیں اور اگر کو ئی تجویز دینا چاہیں تو ہمیں بہت خوشی ہوگی۔

ہمارا منصوبہ ہے کہ ہم ایک پیس پارک بنائیں جس میں ایک یادگار بنائیں جس پر اپنے پشاور سکول کہ شہداء کہ نام مع تصویر کہ دینگے اور یہی نہیں بلکہ ۱۱۔۹ سے لیکر امن ہونے تک کہ ۵۰ ہزار فوجی اور سویلین کہ خراج عقیدت پیش کرنے کہ لیے ایک مینار ہوگا اور

یہ اس لیے ضروری ہے کہ نہ صرف ہم اور ہماری آئیندہ نسلیں ان قربانیوں کو یاد رکھیں اور سبق سکھیں اور موجودہ اور ایندہ کہ حکمرانوں کو بھی اس ملک کی اہمیت معلوم ہو کہ یہ ملک کس نے پلییٹ میں سجا کر نہیں دیا اس کی بنیادوں میں ہزاروں ماوں کہ جگر کے ٹکڑوں کا خون اور خواب شامل ہیں۔کیونکہ جو باضمیر قومیں ہوتی ہیں وہ ان سے سبق لیتی ہیں اور دنیا کہ لیے مثال بنتی ہیں جس کی ایک مثال جاپان کی ہمارے سامنے ہے کہ جس نیٌّ( ہیروشیما اور ناگاساکی )کہ کھنڈرات سے وہ سبق لیا کہ وہ ملک کہ جس نے سب کیا اُس کہ سامنے خود کھڑا کرکے دکھایا بلکہ دنیا کہ لیے ایک عظم و ہمت کی مثال قائم کی اور یہی مقصد ہم دنیا کہ لیے نہ سہی خود کہ لیے خود احتسابی کے لیے بنانی ہوگی اور ہی ایک چھوٹا سا خراجِ عقیدت شہداء کو ہوگا اور ان کہ غم زدہ لواحقین کو تسلی ہوگی کہ اُن کے پیاروں کی قربانی کا قوم کو احساس ہے۔میری تمام اہلِ وطن سے گذارش ہے کہ وہ اس پراجیکٹ میں کامیابی کے لیے دعا کریں کیونکہ میں کوئی ( پاکستانی بلِ گیٹ ۔۔۔۔۔ نہیں ہوںٌ)ؒ لہذا میں ایک آرگنایزیشن کہ ساتھ ملکر اس

پراجیکٹ کو شروع کر چکی ہوں آپکی آراء تجاویز کا انتطار رہے گا خدا ہماری سرزمین کو اور اس پر بسنے والے ہر جاندار کو امن اور سلامتی نصیب کرے!

آمین

2 تبصرے ”یہ ناممکن ہے کہ ہم آپنے شہیدوں کو بھول جایں!

اپنا تبصرہ لکھیں