باعث افتخار
انجینئر افتخار چودھری
( کالم نویس کا تعلق تحریک انصاف سے پارٹی کے سینئر رہنماؤں میں شمار ہوتا ہے۔قومی جرائد میں عرصہ ء دراز سے لکھ رہے ہیں)
لوگ بڑے پریشان ہیں کسی کو سمجھ ہی آتی کے کریں تو کریں کیا۔کسی برنال کسی ٹروما سینٹر میں تیر بہدف نسخہ نہیں دوائی نہیں۔لوگ سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ اس کا حل نکالو اس کا علاج دریافت کرو ،جاؤ جاؤ کسی وید کو بلاؤ کچھ مامے خانوں نے انٹرا پارٹی الیکشنز پر انگلیاں اٹھائی ہیں یہ بھی داخلی بیمار ہیں۔انہیں جان لینا چاہئے پارٹی کا بیڑا غرق ۳۱۰۲ کے انٹر پارٹی الیکشنز کی وجہ سے ہوا۔وہ لوگ بھی صدر بن گئے جن کو گاؤں میں کوئی پہچانتا نہیں تھا اور گھر میں دوسری بار سالن بھی لینے کے لئے انہیں منت سماجت کرنا پڑتی تھی۔پارٹی اس وقت ان جھنجٹ میں پڑ گئی تو جو بچا ہے وہ بھی لٹ جائے گا۔پیپلز پارٹی سے پی ٹی آئی کی طرف آنے والوں کی پیڑ نون کو ہے اور انٹرا پارٹی انتحابات کے طریقے کی تکلیف بھی پی ٹی آئی مخلافین کو ہے۔جس طرح ہر بیماری کے جسم پر اثرات ہوتے ہیں اور وہ ہر شخص پر مختلف بھی ہوتے ہیں اسی طرح نون پر علامات مختلف جے یو آئی پر کسی اور انداز کے اور پی پی پی پر کسی اور رنگ کے اثرات ہیں۔اس کا واحد علاج آنے والا الیکشن ہے۔بغض عمران میں ملوث لوگوں کی کھرک مٹھی کرنے کا سمے قریب ہے۔اللہ کرے گا اس سے پھٹے پرانے پاکستان کے مستریوں کا بھی علاج ہو گا کالنگ فونز اور ایزی لوڈوں کو بھی آفاقہ ہو گا۔واللہ!یہ جو نئی بیماری ہے نون غنوں پر بھاری ہے۔
بیماری ایسی ہے کہ بدن سے ٹیسیں زبان پر لچر پن،ناشتے میں گالی دینے کو جی چاہتا ہے ادب احترام نام کی چیز نہیں ہوتی۔مریض کا ایسے میں کچھ کھانے کو جی چاہتا ہے جس میں حرام کے مصالحے تیز ہوں بد تمیزی کی چٹنی مغلظات کی بریانی بے غیرتی اور بے شرمی کا بھنا گوشت نمکین کی کڑاہی پر حرامخوری کی مرچیں۔بس یہ بیماری کسی کام کا نہیں چھوڑتی۔ڈاکٹر تو کافی عرصے سے اسے لا علاج قرار دے چکے ہیں عرب سے دوائیاں منگوائی گئیں اس سے بھی افاقہ نہیں ہوا۔سیانے پاگل بن کر نکل گئے۔سمجھ پھر بھی نہیں آئی۔دوستو!اب حیران ہوں گے کہ یہ کون سی نامراد بیماری ہے؟اس کا نام کیا ہے؟جو نہ سردیوں میں ٹھیک ہوتی ہے نہ گرمیوں میں۔مریض ہذیان بکتا ہے کبھی کہتا ہے نا تجربہ کار ہیں کبھی کہتا ہے گھسے پٹے لے لئے۔غرض ان عقل کے اندھوں کو یہ بیماری جینے نہیں دیتی۔سکھ چین سے رہنے نہیں دیتی۔اس بیماری کا نام بغض عمران ہے۔اور بغض عمران کبھی ہیلی کاپٹر کبھی گاڑی پر وار کرتا ہے اس سے بڑے بڑے پیٹوں والے ملا بھی مبتلا ہیں اور پٹوار زدہ لوگ بھی۔ زیادہ تر نون غنے اس بیماری کا شکار ہیں ان کی کسی ویٹنگ روم میں موجودگی سے ہتک ہو جاتی ہے چاہے ایئر کنڈیشنڈ ہی کیوں نہ ہو۔بغج عمران نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا یہ باہر جاتے ہیں تو چور چور کا شور مچا جاتا ہے رات کو سوتے ہیں تو ہڑا بڑا کر اٹھ جاتے ہیں۔بندروں کی طرح کھجلی کرتے یہ لوگ نہ گھر کے رہے ہیں نہ گھاٹ کے۔پانامہ کے مستند ڈاکو اور اس حرام مال سے کمایا ہوا مال کیا اولاد حلال پیدا کرے گا؟کبھی نہیں حرامی صرف نطفتا نہی ہوتے یاد رکھئے حرام مال کبھی حلال خون نہیں پیدا کرتا۔ بیماری میں ہلکان ہو کر جاپان سے کتے بھی منگوائے جاتے ہیں جو شیخ جیسی بے ضرر قوم کو بھی کاٹنے کی کوشش کرتے ہیںیہ عدالتوں سے بری بھی ہو جائیں ان کے قطری مالکان اور کفیل آ بھی جائیں یہ بغض عمران کی بیماری سے تڑپ تڑپ کر مریں گے۔
یہ ایک وائرس بن چکی ہے جو معاشرے کے مختلف طبقوں کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔صحافی جو معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے اس طبقے میں بھی یہ گھس چکی ہے ایک فرد کو تو اس نے گوڈے گوڈے قابو کر لیا ہے وہ جب اپنے حصے کی ہڈی وصول کر لیتا ہے تو اسے آگ برساتے ہوئے آسمان پر گھنگور گھٹائیں چھائی نظر آتی ہیں جب بھی اس ممدوح اسے نظر آتا ہے۔ایک اور صحافی ایسا ہے جس کے پاس ۲۰۰۲ میں ۶۹ ماڈل کی سرخ کرولا ہوتی تھی اور ڈگی میں موت کا چلتا پھرتا بم سی این جی لگائے وہ کسی ورکشاپ میں جا کر ڈسکاؤنٹس کی بھیک مانگا کرتا تھا جس نے ایک کار ڈیلر کے ذریعے ایک چٹھی لکھی کے باس میں ایک لکھاری ہوں مجھے گاڑی دی جائے ان دنوں گاڑیوں پر اون تھا وہ اس کمپنی کے مینیجر سے ایک آدھ اور بھی فائدے یتا رہا اپنے آپ کو جارجیا سے آیا ہوا گجر کہلاتا ہے لیکن تحقیق بتاتی ہے شخص کا نڑی ڈٹا کمزور ہے۔نون غنی اس بیماری نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا اسے دوسری کی آنکھ کا بال تو نظر آتا ہے مگر جس کے در سے کھاتا ہے اس کا شہتیر بھی دکھائی نہیں دیتا۔یہ اتنا طوطا چشم ہے کہ ااپنے محسنوں کو بھی پہچانتا۔اسے بغض عمارن کی بیماری نے کہیں کا نہیں چھوڑا اسے نیا پاکستان پھٹا پرانا نظر آتا ہے حالیہ کالم میں اس نا مراد بیماری اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ زرداری کی پارٹی سے آنے والوں کے عیب اس لئے نظر آتے ہیں کہ وہ پاکستان کے مستند چوروں کی پارٹی میں نہیں گئے۔مجھے ترس آتا ہے اس بیمار کی اچھل کود پر۔اسے بغض عمران نے کہیں کا نہیں چھوڑا وہ ذوالفقار علی بھٹو کی تعریف کرتا ہے مگر یہ نہیں بتاتا کہ اس کی پارٹی کے ساتھ زرداری نے کیا سلوک کیا۔
ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلی نظر آتا ہے
اس نے تازہ کالم میں نذر گوندل اور ان کے بھائی ظفر گوندل کی کرپشن کی داستاں تو سنائی ہے لین اسے یہ علم نہیں کہ اگر لیڈر کرپٹ ہوں سرے محل بنا رہے ہوں کوئی ترکش صدر کا ہار پی جاتا ہو تو وہاں کرپٹ ہی اگتے ہیں۔جہاں جہاں پانامے ہوں گے وہاں وہاں ڈاکے پڑیں گے ۔میرے اس چار چشمے بھائی کو یہ نہیں علم کہ عمران خان نے کے پی کے میں چار سال حکومت کی ہے کوئی ایک میگا سکینڈل ثابت ہوا ہے کوئی ڈاکہ پڑا ہے۔اس گندی بیماری نے کیا کیا کیڑے پیدا کئے ہیں جنہیں سار اچھا جسم چھوڑ کر زخم پر بیٹھنے کی عادت ہے یہ بیماری زیادہ پرانی نہیں۔ہزار طبیب اسے لا علاج قرار دے چکے ہیں مگر اس کا علاج میرے اور آپ کے پاس ہے جان لیجئے اگر ادارے کا سربراہ چور ہو گا تو چھوٹے چور پیدا ہوں گے وہ خود ہی ان کو کرپٹ کرے گا لیکن اگر وہ کرپٹ نہ ہوا تو ہزار گوندل لاکھ فردوسیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔بغض عمران کا ایک ہی علاج ہے کہ پی ٹی آئی والے مایوس نہ ہوں۔کچھ مامے خانوں نے انٹرا پارٹی الیکشنز پر انگلیاں اٹھائی ہیں یہ بھی داخلی بیمار ہیں۔انہیں جان لینا چاہئے پارٹی کا بیڑا غرق ۳۱۰۲ کے انٹر پارٹی الیکشنز کی وجہ سے ہوا۔وہ لوگ بھی صدر بن گئے جن کو گاؤں میں کوئی پہچانتا نہیں تھا اور گھر میں دوسری بار سالن بھی لینے کے لئے انہیں منت سماجت کرنا پڑتی تھی۔پارٹی اس وقت ان جھنجٹ میں پڑ گئی تو جو بچا ہے وہ بھی لٹ جائے گا۔پیپلز پارٹی سے پی ٹی آئی کی طرف آنے والوں کی پیڑ نون کو ہے اور انٹرا پارٹی انتحابات کے طریقے کی تکلیف بھی پی ٹی آئی مخلافین کو ہے۔جس طرح ہر بیماری کے جسم پر اثرات ہوتے ہیں اور وہ ہر شخص پر مختلف بھی ہوتے ہیں اسی
طرح نون پر علامات مختلف جے یو آئی پر کسی اور انداز کے اور پی پی پی پر کسی اور رنگ کے اثرات ہیں۔اس کا واحد علاج آنے والا الیکشن ہے۔بغض عمران میں ملوث لوگوں کی کھرک مٹھی کرنے کا سمے قریب ہے۔اللہ کرے گا اس سے پھٹے پرانے پاکستان کے مستریوں کا بھی علاج ہو گا کالنگ فونز اور ایزی لوڈوں کو بھی آفاقہ ہو گا۔واللہ!یعنی لوگ جائیں پی پی پی کے اور مروڑ اٹھے نون کی مر نہ جاؤں اس سادگی پے غالب سچ تو یہ ہے یہ جو نئی بیماری ہے نون غنوں پر بھاری ہے۔
( کالم نویس کا تعلق تحریک انصاف سے پارٹی کے سینئر رہنماؤں میں شمار ہوتا ہے۔قومی جرائد میں عرصہ ء دراز سے لکھ رہے ہیں)
لوگ بڑے پریشان ہیں کسی کو سمجھ ہی آتی کے کریں تو کریں کیا۔کسی برنال کسی ٹروما سینٹر میں تیر بہدف نسخہ نہیں دوائی نہیں۔لوگ سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ اس کا حل نکالو اس کا علاج دریافت کرو ،جاؤ جاؤ کسی وید کو بلاؤ کچھ مامے خانوں نے انٹرا پارٹی الیکشنز پر انگلیاں اٹھائی ہیں یہ بھی داخلی بیمار ہیں۔انہیں جان لینا چاہئے پارٹی کا بیڑا غرق ۳۱۰۲ کے انٹر پارٹی الیکشنز کی وجہ سے ہوا۔وہ لوگ بھی صدر بن گئے جن کو گاؤں میں کوئی پہچانتا نہیں تھا اور گھر میں دوسری بار سالن بھی لینے کے لئے انہیں منت سماجت کرنا پڑتی تھی۔پارٹی اس وقت ان جھنجٹ میں پڑ گئی تو جو بچا ہے وہ بھی لٹ جائے گا۔پیپلز پارٹی سے پی ٹی آئی کی طرف آنے والوں کی پیڑ نون کو ہے اور انٹرا پارٹی انتحابات کے طریقے کی تکلیف بھی پی ٹی آئی مخلافین کو ہے۔جس طرح ہر بیماری کے جسم پر اثرات ہوتے ہیں اور وہ ہر شخص پر مختلف بھی ہوتے ہیں اسی طرح نون پر علامات مختلف جے یو آئی پر کسی اور انداز کے اور پی پی پی پر کسی اور رنگ کے اثرات ہیں۔اس کا واحد علاج آنے والا الیکشن ہے۔بغض عمران میں ملوث لوگوں کی کھرک مٹھی کرنے کا سمے قریب ہے۔اللہ کرے گا اس سے پھٹے پرانے پاکستان کے مستریوں کا بھی علاج ہو گا کالنگ فونز اور ایزی لوڈوں کو بھی آفاقہ ہو گا۔واللہ!یہ جو نئی بیماری ہے نون غنوں پر بھاری ہے۔
بیماری ایسی ہے کہ بدن سے ٹیسیں زبان پر لچر پن،ناشتے میں گالی دینے کو جی چاہتا ہے ادب احترام نام کی چیز نہیں ہوتی۔مریض کا ایسے میں کچھ کھانے کو جی چاہتا ہے جس میں حرام کے مصالحے تیز ہوں بد تمیزی کی چٹنی مغلظات کی بریانی بے غیرتی اور بے شرمی کا بھنا گوشت نمکین کی کڑاہی پر حرامخوری کی مرچیں۔بس یہ بیماری کسی کام کا نہیں چھوڑتی۔ڈاکٹر تو کافی عرصے سے اسے لا علاج قرار دے چکے ہیں عرب سے دوائیاں منگوائی گئیں اس سے بھی افاقہ نہیں ہوا۔سیانے پاگل بن کر نکل گئے۔سمجھ پھر بھی نہیں آئی۔دوستو!اب حیران ہوں گے کہ یہ کون سی نامراد بیماری ہے؟اس کا نام کیا ہے؟جو نہ سردیوں میں ٹھیک ہوتی ہے نہ گرمیوں میں۔مریض ہذیان بکتا ہے کبھی کہتا ہے نا تجربہ کار ہیں کبھی کہتا ہے گھسے پٹے لے لئے۔غرض ان عقل کے اندھوں کو یہ بیماری جینے نہیں دیتی۔سکھ چین سے رہنے نہیں دیتی۔اس بیماری کا نام بغض عمران ہے۔اور بغض عمران کبھی ہیلی کاپٹر کبھی گاڑی پر وار کرتا ہے اس سے بڑے بڑے پیٹوں والے ملا بھی مبتلا ہیں اور پٹوار زدہ لوگ بھی۔ زیادہ تر نون غنے اس بیماری کا شکار ہیں ان کی کسی ویٹنگ روم میں موجودگی سے ہتک ہو جاتی ہے چاہے ایئر کنڈیشنڈ ہی کیوں نہ ہو۔بغج عمران نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا یہ باہر جاتے ہیں تو چور چور کا شور مچا جاتا ہے رات کو سوتے ہیں تو ہڑا بڑا کر اٹھ جاتے ہیں۔بندروں کی طرح کھجلی کرتے یہ لوگ نہ گھر کے رہے ہیں نہ گھاٹ کے۔پانامہ کے مستند ڈاکو اور اس حرام مال سے کمایا ہوا مال کیا اولاد حلال پیدا کرے گا؟کبھی نہیں حرامی صرف نطفتا نہی ہوتے یاد رکھئے حرام مال کبھی حلال خون نہیں پیدا کرتا۔ بیماری میں ہلکان ہو کر جاپان سے کتے بھی منگوائے جاتے ہیں جو شیخ جیسی بے ضرر قوم کو بھی کاٹنے کی کوشش کرتے ہیںیہ عدالتوں سے بری بھی ہو جائیں ان کے قطری مالکان اور کفیل آ بھی جائیں یہ بغض عمران کی بیماری سے تڑپ تڑپ کر مریں گے۔
یہ ایک وائرس بن چکی ہے جو معاشرے کے مختلف طبقوں کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔صحافی جو معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے اس طبقے میں بھی یہ گھس چکی ہے ایک فرد کو تو اس نے گوڈے گوڈے قابو کر لیا ہے وہ جب اپنے حصے کی ہڈی وصول کر لیتا ہے تو اسے آگ برساتے ہوئے آسمان پر گھنگور گھٹائیں چھائی نظر آتی ہیں جب بھی اس ممدوح اسے نظر آتا ہے۔ایک اور صحافی ایسا ہے جس کے پاس ۲۰۰۲ میں ۶۹ ماڈل کی سرخ کرولا ہوتی تھی اور ڈگی میں موت کا چلتا پھرتا بم سی این جی لگائے وہ کسی ورکشاپ میں جا کر ڈسکاؤنٹس کی بھیک مانگا کرتا تھا جس نے ایک کار ڈیلر کے ذریعے ایک چٹھی لکھی کے باس میں ایک لکھاری ہوں مجھے گاڑی دی جائے ان دنوں گاڑیوں پر اون تھا وہ اس کمپنی کے مینیجر سے ایک آدھ اور بھی فائدے یتا رہا اپنے آپ کو جارجیا سے آیا ہوا گجر کہلاتا ہے لیکن تحقیق بتاتی ہے شخص کا نڑی ڈٹا کمزور ہے۔نون غنی اس بیماری نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا اسے دوسری کی آنکھ کا بال تو نظر آتا ہے مگر جس کے در سے کھاتا ہے اس کا شہتیر بھی دکھائی نہیں دیتا۔یہ اتنا طوطا چشم ہے کہ ااپنے محسنوں کو بھی پہچانتا۔اسے بغض عمارن کی بیماری نے کہیں کا نہیں چھوڑا اسے نیا پاکستان پھٹا پرانا نظر آتا ہے حالیہ کالم میں اس نا مراد بیماری اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ زرداری کی پارٹی سے آنے والوں کے عیب اس لئے نظر آتے ہیں کہ وہ پاکستان کے مستند چوروں کی پارٹی میں نہیں گئے۔مجھے ترس آتا ہے اس بیمار کی اچھل کود پر۔اسے بغض عمران نے کہیں کا نہیں چھوڑا وہ ذوالفقار علی بھٹو کی تعریف کرتا ہے مگر یہ نہیں بتاتا کہ اس کی پارٹی کے ساتھ زرداری نے کیا سلوک کیا۔
ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلی نظر آتا ہے
اس نے تازہ کالم میں نذر گوندل اور ان کے بھائی ظفر گوندل کی کرپشن کی داستاں تو سنائی ہے لین اسے یہ علم نہیں کہ اگر لیڈر کرپٹ ہوں سرے محل بنا رہے ہوں کوئی ترکش صدر کا ہار پی جاتا ہو تو وہاں کرپٹ ہی اگتے ہیں۔جہاں جہاں پانامے ہوں گے وہاں وہاں ڈاکے پڑیں گے ۔میرے اس چار چشمے بھائی کو یہ نہیں علم کہ عمران خان نے کے پی کے میں چار سال حکومت کی ہے کوئی ایک میگا سکینڈل ثابت ہوا ہے کوئی ڈاکہ پڑا ہے۔اس گندی بیماری نے کیا کیا کیڑے پیدا کئے ہیں جنہیں سار اچھا جسم چھوڑ کر زخم پر بیٹھنے کی عادت ہے یہ بیماری زیادہ پرانی نہیں۔ہزار طبیب اسے لا علاج قرار دے چکے ہیں مگر اس کا علاج میرے اور آپ کے پاس ہے جان لیجئے اگر ادارے کا سربراہ چور ہو گا تو چھوٹے چور پیدا ہوں گے وہ خود ہی ان کو کرپٹ کرے گا لیکن اگر وہ کرپٹ نہ ہوا تو ہزار گوندل لاکھ فردوسیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔بغض عمران کا ایک ہی علاج ہے کہ پی ٹی آئی والے مایوس نہ ہوں۔کچھ مامے خانوں نے انٹرا پارٹی الیکشنز پر انگلیاں اٹھائی ہیں یہ بھی داخلی بیمار ہیں۔انہیں جان لینا چاہئے پارٹی کا بیڑا غرق ۳۱۰۲ کے انٹر پارٹی الیکشنز کی وجہ سے ہوا۔وہ لوگ بھی صدر بن گئے جن کو گاؤں میں کوئی پہچانتا نہیں تھا اور گھر میں دوسری بار سالن بھی لینے کے لئے انہیں منت سماجت کرنا پڑتی تھی۔پارٹی اس وقت ان جھنجٹ میں پڑ گئی تو جو بچا ہے وہ بھی لٹ جائے گا۔پیپلز پارٹی سے پی ٹی آئی کی طرف آنے والوں کی پیڑ نون کو ہے اور انٹرا پارٹی انتحابات کے طریقے کی تکلیف بھی پی ٹی آئی مخلافین کو ہے۔جس طرح ہر بیماری کے جسم پر اثرات ہوتے ہیں اور وہ ہر شخص پر مختلف بھی ہوتے ہیں اسی
طرح نون پر علامات مختلف جے یو آئی پر کسی اور انداز کے اور پی پی پی پر کسی اور رنگ کے اثرات ہیں۔اس کا واحد علاج آنے والا الیکشن ہے۔بغض عمران میں ملوث لوگوں کی کھرک مٹھی کرنے کا سمے قریب ہے۔اللہ کرے گا اس سے پھٹے پرانے پاکستان کے مستریوں کا بھی علاج ہو گا کالنگ فونز اور ایزی لوڈوں کو بھی آفاقہ ہو گا۔واللہ!یعنی لوگ جائیں پی پی پی کے اور مروڑ اٹھے نون کی مر نہ جاؤں اس سادگی پے غالب سچ تو یہ ہے یہ جو نئی بیماری ہے نون غنوں پر بھاری ہے۔