ہلکی سی دستک دے دو ناں

دو اک بار دھیرے سے

ہلکی سی دستک دے دو ناں

اندر نہ آنا

رکنا نہیں

جلدی میں ہوں کہہ دینا

سناٹا من کے اندر

راتیں بنجر

پاس پڑوس آباد برابر

تاریکی میں آگ لگا دو

تار یہ دل کے چھیڑو ناں

ہلکی سی دستک دے دو ناں

برسوں بیتے آیا نہ گیا

اندر سے وہ سایہ نہ گیا

حقیقت ہو تم خواب نہیں

کہہ دو ناں

ہلکی سی دستک دے دو ناں

وہ شام ہو یا سویرا ہو

ہر اور تیرا بسیرا ہو

آتے ہی تیرے بندیا چمکے

باقی گھنگھور اندھیرا ہو

کچھ تکلیف تو ہوگی پر

سہہ لو ناں

ہلکی سی دستک دے دو ناں

انجان سڑک کا راہی ہے

یہ خون ہے یا سیاہی ہے

تڑپے ہے کاہے یک بہ یک

بندا ہے یا ماہی ہے

کچھ ابر ہی دو گر برسو نا

ہلکی سی دستک دے دو ناں

{عمران جونانی}

اپنا تبصرہ لکھیں