کہاں آرام کی فرصت، ابھی تو کام باقی ہے

 غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
 
 
کہاں آرام کی  فرصت، ابھی تو کام باقی ہے
ہیں  ناکارہ،  ہمارے سر پہ یہ الزام باقی ہے
 
ہے یہ تاریخ کے ہاتھوں میں کس کو کیا جگہ دے دے
کسی کا نام غائب ہے، کسی کا نام باقی ہے
 
نظر انداز کب تک کرتی ہے دنیا یہ دیکھیں گے
کیا ہے کام تو کافی مگر انعام باقی ہے
 
گیا کیا چھوڑ کر وہ بزم کو ہر شے ہوئی ساکت
نہ وہ ہلچل ہی باقی ہے نہ وہ کہرام باقی ہے
 
انھیں زیبا ہے، اہل_زر ہیں، عزت بھی خریدیں گے
جو اہل_علم ہیں انکا ابھی اکرام باقی ہے
 
ہیں وہ موجود ابھی جو حق کو باطل کہہ نہیں سکتے
ابھی موجود ہے قرآں، ابھی اسلام باقی ہے
 
جو اپنے تھے ہمارے، جا چکے ہیں چھوڑ کرجاوید 
بھری محفل میں  تنہا ہیں بس اپنا  جام باقی ہے
 
اپنا تبصرہ لکھیں