افکار تازہ
عارف محمود کسانہ
علامہ اقبال اور میاں محمد بخش دونوں کا تعلق خطہ جموں کشمیر سے ہے۔ اقبال کے آبائو اجدادکشمیر سے ہجرت کرکے سیالکوٹ جا بسے لیکن اقبال کشمیر کو ہی اپنا وطن کہتے رہے جبکہ میاں محمدتو رہنے والے ہی کھڑی شریف میرپور کے تھے۔علامہ اقبال نے فارسی اور اردو کو اپنے پیغام کا ذریعہ بنایا جبکہ میاں صاحب نے یہی کام پنجابی میں کیا۔ پنجابی برصغیر کی ایک بڑی زبان ہے جو صوبہ جموں کی ایک بڑی زبان ہے۔اس زبان کا دامن بہت وسیع ہے اور اس کے بہت سے شعراء ہیں جن کا کلام ہر دور میں عوام میںمقبول رہا ہے۔ برصغیرمیں آنے والے صوفیا اکرام جب خطہ پنجاب میں آئے تو انہوں نے یہاں کی زبان کو اپنی رائے کا اظہار کا ذریعہ بنا یا جن کا کلام آج بھی وجد آفرین ہے ۔اُن کے کلام میں انسان دوستی، محبت و یگانگت ، برداشت ، صلح جوئی اور احترام باہمی کا پیغام ملتا ہے جسے دورحاضر میں پھیلانے کی بہت ضرورہے۔ انہی صوفی شعراء میں ایک میاں محمد بخش ہیں جن کا تعلق ریاست جموں کشمیر کے علاقہ کھڑی ضلع میرپور سے ہے۔ یہ علاقہ چونکہ پنجاب سے ملحق ہے اس لیے یہاں کی زبان پنجابی ہے جس پر پوٹھواری کا بہت اثر ہے۔ میاں محمد بخش کی ولادت ١٨٣٠ء کو میاں شمس الدین کے ہاں ہوئی جو قبیلہ گوجر پسوال کے ایک معزز شخص اور صوفی منش تھے ۔ میاں محمدبخش کے دادامیاں محمد دین پیرا شاہ غازی دمڑی والی سرکار کے سجادہ نشین تھے بعد ازاں آپ کے والد اور پھر خود میاں صاحب نے یہ منصب سنبھالا۔ انہوں نے زمانے کے دستور کے تحت عربی، فارسی اور دینی علوم سیکھے ۔ آپ کا دور ریاست جموں کشمیر کے مسلمانوں کے لیے بہت پر اشوب تھا کیونکہ ١٨٤٦ء کو مہاراجہ گلاب سنکھ نے عہد نامہ امرتسر کے تحت انگریزوں سے ریاست کو خرید لیا تھا اور مطلق العنان حکمران بن گیا۔ برصغیر کے مسلمان بھی جنگ آازدی میں شکست کے بعد محکومی کی زندگی بسر کررہے تھے۔ میاں صاحب کے کلام میں جابجا ان حالات کی عکاسی ہوتی ہے۔ریاست جموں کشمیر کے معروف محقق ڈاکٹر غلام حسین نے آپ کی پندرہ تصانیف کا ذکر کیا ہے جن میں سیف الملوک، سوہنی مہینوال، تحفہ میراں، نیرنگ خیال، تحفہ رسولیہ، سیریں فرہاد، مرزا صاحباں، ہیر رانجھا، شاہ منصور اور ہدایت المسلمین شامل ہیں۔ میاں صاحب نے عوام الناس خصوصاََ کم تعلیم یافتہ طبقہ کو عشق حقیقی کی طرف لے جانے کے لیے مجاز کی مثالوں سے سمجھایا ہے۔ انہوں نے پنجابی کے اہم صوفی شعراء کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے جن میں سلطان باہو، بابا فرید شکرگنج، بلھے شاہ، وارث شاہ اور شاہ مراد شامل ہیں۔ میاں محمد بخش کے بارے میں بہت کتب لکھی گئی ہیں جن میں معروف ادیب اور صحافی کلیم اختر کی اقبال اور مشاہیر کشمیر، پروفیسر نذیر احمد تشنہ کی مطالعہ کشمیر اور ڈاکٹر غلام حسین اظہر کی میاں محمد شخصیت اور فن شامل ہیں ۔ میری خوش نصیبی ہے ان تینوں شخصیات کی شاگردی اور صحبت حاصل رہی ہے۔
میاں محمد بخش کا دور علامہ اقبال سے کچھ ہی عرصہ پہلے کا ہے اور اتفاق یہ ہے کہ جب ان کا انتقال ١٩٠٧ء میں ہوا علامہ اقبال کی شاعری کا وہ دور شروع ہوا جس نے انہیں حکیم الامت کے مرتبہ پر فائیز کیا۔ علامہ اقبال کی چونکہ مادری زبان پنجابی تھی اس لیے انہیں میاں محمد بخش کا کلام بہت پسند تھا۔ بقول صوفی تبسم علامہ اقبال پنجابی کے مشاہیر شعراء کے بہت مداح تھے۔ ایک دفعہ لاہور میں علامہ اقبال نعت خوانی کی ایک محفل میں شریک تھے جہاں کسی نے میاں محمد بخش کی تصنیف سیف الملوک کا کلام پڑھنا شروع کیا
ملک عبادت خاصی اندر دائم رہن کھلوتے پر عشقے دی لہر ے دے اندر ما نہ سکدے غوطے
یہ سننا تھا کہ علامہ پر رقت طاری ہوگئی او آنکھیں پر نم تھیںبعد میں فرمایا کہ میاں صاحب اگر آج زندہ ہوتے تو میں اُن کے ہاتھ چوم لیتا۔ میاں صاحب کی اسی شعر کو علامہ اقبال نے یوں کہا ہے کہ مقام شوق تیرے قدسیوں کے بس کا نہیں انہیں کاکام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیادہ
میاں محمد بخش اور علامہ اقبال دونوں بہت بڑے عاشق رسول تھے اور انسانیت کے ترجمان تھے۔ دونوں کے کلام میں بہت اشتراک پایا جاتا ہے جس ایک وجہ دونوں کا مولانا روم سے متاثر ہونا ہے۔ دونوں حضرات کا تعلق سلسلہ قادریہ سے تھا۔ علامہ اقبال نے قاضی سلطان محمود کے ہاتھوں پر بیعت کی اورسلسلہ قادریہ سے وابستہ ہوئے۔ قاضی سلطان محمود اور میاں محمد بخش ہم عصر تھے اور دونوں میں اکثر ملاقاتوں کا سلسلہ رہتا تھااور ایک دفعہ جب قاضی صاحب ملنے بعد جانے لگے تو میاں صاحب نے اُن کے رخصت ہونے پر ایک رباعی بھی لکھی۔ اس اعتبار علامہ اقبال کی میاں محمد بخش سے الفت قدرتی امر ہے۔ تصوف میں غیر اسلامی تعلیمات کے اثرات کے بارے میںعلامہ اقبال سید سلیمان ندوی کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ خواجہ نقشبندی سرہند کی میرے دل میں بہت عزت ہے مگر افسوس کہ آج یہ سلسلہ بھی عجمیت کے رنگ میں رنگ گیا ہے۔ یہی حال سلسلہ قادریہ کا ہے جس میں، میں خود بیعت رکھتا ہوں حالانکہ حضرت محی الدین کا مقصود اسلامی تصوف کو عجمیت سے پاک کرنا تھا۔علامہ قبال اور میاں محمد بخش کے کلام میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے ۔ اسی تناظر میں میاں محمد بخش اور علامہ اقبال کے وہ چنداشعار پیش ہیں جن کا پیغام ایک ہی ہے۔
میاں صاحب لوئے لوئے بھر لے کڑیئے جے توں بھانڈاں بھرناں شام پئی بن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا
علامہ اقبال عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
میاں صاحب بال چراغ عشق دا میرا روشن کردے سیناں دل دے دیوے دی روشنائی جاوے وچ زمیناں
علامہ اقبال خدایا آرزو میری یہی ہے میرا نور بصیرت عام کردے
میاں صاحب دل وچ کرے دمیل شہزادہ کیہہ کم کرسن تارے آپ تخت توں ڈھیندے جاندے او غریب وچارے
علامہ اقبال ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوارو زبوں
میاں صاحب سچے مرد صفائی والے جو کچھ کہن زبانوں مولا پاک سنیدا اوہو پکی خبر اسانوں
علامہ اقبال ہاتھ ہے اللہ کا بندئہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفرین کار کشا کار ساز
میاں صاحب جے لکھ واری عطر گلابوں دھوئیے نِت زباناں نام انہاں دے لائق ناہیں کی کلمے دا کاناں
علامہ اقبال چوں بنام مصطفےۖ خوانم درود از خجالت آب می گردو وجود
سید نذیر نیازی جو بہت عرصہ علامہ اقبال کی صحبت میں رہے اور علامہ کے خطباات کا اردو ترجمعہ بھی کیا ، ان کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ کچھ لوگ علامہ اقبال سے ملنے آئے اور دوران گفتگو علامہ نے اپنے کچھ شعر پڑھے تو ان لوگوں نے میاں محمد بخش کے اشعار سنائے جن میںوہی پیغام تھا تو علامہ نے فرمایا کہ میاں سو دانا اور ایک ہی بات ۔