خورشید ملت۔ کچھ باتیں کچھ یادیں

افکار تازہ

ڈاکٹر عارف محمود کسانہ

کے ایچ خورشید صاحب سے میری پہلی ملاقات ١٩٨٤ء میں لاہور ہائی کورٹ کے عقب میں ٹرنر روڈ پر ان کے دفتر میں ہوئی تھی۔ میرے بڑے بھائی طارق محمود چوہدری اُس وقت انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں تھے اور و ہاں زیر تعلیم کشمیری طلباء کی تنظیم کشمیر سٹوڈنٹس آرگنائیزیشن کے جنرل سیکریٹری تھے ۔ اُن کا کے ایچ خورشید کے ساتھ بہت قریبی تعلق تھا اور اور مجھے خورشید صاحب سے ملنے کی خواہش تھی۔ وہ مجھے خورشید صاحب سے ملوانے اُن کے دفتر میں لے گئے۔ خورشید صاحب کے دفتر کے ساتھ ہی پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے صدر سی آر اسلم کا بھی دفتر تھا۔ خورشید صاحب سے ملنے کا اشتیاق اس وجہ سے تھا کہ اُس شخصیت سے ملوں گا جنہوں نے قائد اعظم کے ساتھ مل کر تحریک پاکستان کے فیصلہ کن دور میں شب و روز کام کیا اور اپنی آنکھوں سے پاکستان بننے دیکھا تھا۔جاتے وقت میں یہی سوچ رہا تھا کہ انہوں نے بر صغیر کے اہم رہنمائوں گاندھی، نہرو ، پٹیل اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت کو بڑی قربت سے دیکھا ہوگا اور وہ اُن کے بارے میں وہ کچھ بتا سکتے تھے جو عموماََ پڑھنے کو نہیں ملتا۔ پرائیویٹ سیکریٹری ہونے کے ناطے وہ قائد اعظم کے ساتھ خلوت اور جلوت میں رہے اس طرح قائد کی شخصیت اور افکار کے بارے میں کوئی شخص اُن سے بہتر نہیںبتا سکتا تھا۔ پھر وہ تحریک آزادی کشمیر کے بھی چشم دید گواہ تھے اور اُن حقائق کوبڑی اچھی طرح جانتے تھے۔ آزادجموں کشمیر میں جمہوریت کی داغ بیل انہوں نے ہی ڈالی اور پھر مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے آزاد جموں کشمیر کی حکومت کو تسلیم کرنے کا مطا لبہ کیا جس سے بہتر حکمت عملی پر کسی اور نہیں غور نہیں کیا اس طرح انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بہترین روڈ میپ دیا۔ انہی سوچوں میں مگن جب ہم اُن کے دفتر میں پہنچے تو انہوں نے خوش خلقی اوربڑی شفقت کے ساتھ ہمیںخوش آمدید کہا اور اور گفتگو کی ایک تفصیلی نشست ہوئی اور دوران انہوں نے چائے وغیرہ سے ہماری تواضع بھی کی۔
مجھے بہت سے رہنمائوں کو ملنے کا موقع ملا ہے اور ملنے سے قبل اُن کی شخصیت کا ایک بہتر تصور ذہن میں ہوتا ہے لیکن اکثر کو ملنے کے بعد وہ تصور کا وہ تاج محل زمین بوس ہوجاتا ہے لیکن خورشید صاحب اس کے برعکس تھے ا اور ملاقات کے بعد میں ان کی شخصیت کا اور بھی معترف ہوگیا۔ مجھے وہ بہت متاثر کن،خوش لباس، پروقار، اور متوازن شخصیت نظر آئے۔اُن کی شخصیت، خوش گفتار اور شفقت بھرے انداز گفتگو نے مجھے اُن کا گرویدہ بنا دیا۔ بڑے قد کاٹھ کے سیاسی رہنمائوں میں جو رعونت اور احساس برتری عام سی بات ہے، خورشید صاحب اس سے کوسوں دور تھے۔ ہماری ملاقات کافی تفصیلی ہوئی ۔ میں نے اُن سے بہت سے چھبتے ہوئے سوالات بھی میں نے کیے لیکن انہوں نے بڑے مشفقانہ انداز میں جوابات دیئے اور کسی بات کا بُرا نہیں منایا۔ اس طرح وہ مجھے حلم اور متانت کا پیکر نظر آئے۔ انہوں نے اس تصور کر رد کیا کہ قائد اعظم آمرانہ شخصیت کے مالک تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاسوں میں اکثر رہنما بہت تیاری کرکے آتے تھے اوراپنا نقطہ نظر کھل کر بیان کرتے تھے اور جمہوری انداز میں فیصلے کئے جاتے تھے۔ قائد اعظم اصولوں کی پاسداری کرتے تھے وہ جھوٹ، منافقت، مفاد پرستی اور بد انتظامی کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ خورشید صاحب کا کہنا تھا کہ قائد اعظم کے بعد اگرحسین شہید سہروردی کو اُن کا جانشنین بنایا دیا جاتا تو پاکستان دو لخت نہ ہوتا اور آج پاکستان کے حالات بہت بہتر ہوتے۔ ریاست آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت کے آغاز، تعمیر و ترقی اور مسئلہ کشمیر کو نئی جہت دینے کے لیے اپنی جماعت جموں کشمیر لبریشن لیگ کے قیام اور صدر پاکستان ایوب خان سے ان اختلافات پر بھی ہماری بات ہوئی۔ اپنی حکومت کی برطرفی کے ضمن میں بات کرتے ہوئے خورشید صاحب نے خودمختار کشمیر کے بلند و بانگ دعویٰ کرنے والے کشمیری رہنمائوں کا بھی ذکر کیا جو اُن کی حکومت کے خلاف سازشیں کرتے تھے۔ یہ ایک یاد گار ملاقات تھی جس کے بعد اُن ساتھاور بھی بہت سی ملاقاتیں ہوئیں۔ اس عرصہ میں لاہور کشمیر کے حوالے سے ہونی والی سرگرمیوں اور تقریبات میں کے ایچ خورشید، ڈاکٹر سلام الدین نیاز سابق وزیر قانون آزادکشمیر، پیر سید نازکی صدر محاذ رائے شماری،ڈاکٹر یوسف بخاری چیئرمین شعبہ کشمیریات پنجاب یونیورسٹی، اشرف قریشی استاد شعبہ کشمیریات(ہائی جیکر بھارتی جہاز گنگا )، سید عبدالحمید دیوانی ( ہائی جیکر بھارتی بوئنگ جہاز) ، معروف صحافی کلیم اختر، مشتاق عاجز کشمیری اور دوسرے بہت سے رہنمائوں سے ملنے اوراُن سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا رہا۔اسی عرصہ میں لاہورکے ٹائون ہال میں مقبول بٹ کے یوم شہادت پر ایک اہم کانفرس منعقد ہوئی جس میں اہم زعماء شریک ہوئے اور مجھے اس کانفرس کی نظامت سونپی گئی۔
خورشید حسن خورشید ریاست جموں کشمیرکی تمام اکائیوں یعنی وادی کشمیر، صوبہ جموں، آزادکشمیر، گلگت بلتستان اور مہاجرین جموں کشمیر میں یکساں مقبول تھے اورسب کے مابین ایک رابطہ تھے یہ امتیاز کسی اور کشمیری رہنماء کے حصہ نہیں آیا۔ مہاجرین جموں کشمیر کے لیے ان کی خدمات مسلمہ تھیں۔ ان کے دور حکومت سے مہاجرین جموں کی نمائندگی سیالکوٹ میں مقیم سٹیٹ کونسلر قاضی خورشیدعالم مرحوم کیا کرتے تھے وہ بہت مہاجرین جموں کے انتہائی مخلص رہنما ، درویش منش انسان اور علامہ اقبال کے گرویدہ تھے۔ اُن سے ملاقات کے لیے میں اکثر پسرور اُن کے گھر جایا کرتا تھا۔ قاضی خورشید نے ہمیشہ کے ایچ خورشید کی خدمات کو سراہا۔کے ایچ خورشید بہت اچھی یاداشت کے مالک تھے اور اپنے کارکنوں کے نام تک انہیں یاد تھے۔ عام لوگوں سے بھی بہت اچھی طرح ملتے تھے اور ان سے مل کر کسی کو بھی کم مائیگی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ان کی موجودگی میں مجھے تقاریر کرنے کا موقع ملا جو میرے لیے ایک اعزاز ہے۔اُن کی وفات سے کچھ ہی عرصہ قبل ان کا پنجاب یونیورسٹی لاہور میںمسئلہ کشمیر کے حوالے اہم خطاب سُنا اور بعد میں اُن سے ملاقات بھی ہوئی جو شائد آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ ١٩٨٥ ء میں جب میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں کشمیری طلباء کی تنظیم جموں کشمیر سٹوڈنٹس آرگنائیزیشن کا جنرل سیکریٹری تھا تویونیورسٹی میں مسئلہ کشمیر پر ایک سیمنار منعقد کیا جس میں کے ایچ خورشید کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے دعوت دی ۔انہوں نے وہاں بہت اہم خطاب کیا۔ خورشید صاحب نے کہا کہ جب مخلص سیاستدان زندہ ہوتے ہیں انہیں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی لیکن جب وہی دنیا سے چلے جاتے ہیں تو قوم ان کی خدمات کا اعتراف کرنا شروع کردیتی ہے۔ اُن دنوں جہاد اور مسلح جدوجہد سے کشمیر کی آزادی کی باتیں ایک بار پھر شروع تھیں جس پر خورشید صاحب کا موقف تھا کہ سیاسی اور سفارتی جدوجہد سے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا چاہیے اورآزادکشمیر حکومت کو پاکستان بھی تسلیم کرے اور دنیا کے دیگر ممالک سے بھی یہ مطالبہ کیا جائے اور اس طرح آزادکشمیر حکومت خود بین الاقوامی سطح پر اپنی آزادی کی بات خود کرے۔ میرے ذاتی مشاہدہ کے مطابق بھی انہوں نے درست راستہ کی نشاندہی کی تھی ۔جب ہم کشمیر کمیٹی سویڈن کے پلیٹ فارم سے سویڈن میں مسئلہ کشمیر کی لابنگ کے لیے جاتے ہی تو اس کا واقعی احساس ہوتا ہے۔
١٩٨٧ء میںوہ آزاد کشمیر اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے۔ میرے برادر محترم طارق محمود چوہدری کے اُن کے دیرینہ تعلقات تھے ۔ ہمارے انکل چوہدری محمد شفیع جنہوں نے ہمیں اپنی اولاد کی طرح پالا تھا وہ گورنمنٹ پائلٹ ہائی سکول بھمبر میںسنیئر مدرس تھے اور انہوں نے ایک طویل مدت تک اس علاقہ میں علم کی شمع روشن کئے رکھی۔ اُن کا انتقال خورشید صاحب سے پورے ایک سال قبل ١١ مارچ ١٩٨٧ء میں ہوا۔ ہم نے ان کی یاد میںمحمد شفیع چوہدری میموریل سوسائٹی قائم کی تاکہ بھمبر کے ذہین طلباء کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔ اس سلسلہ کے پہلے پروگرام میں ہم نے خورشید صاحب کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا۔ اُن کے ساتھ لبریشن لیگ کے اہم رہنماء چوہدری سلیمان، راجہ بسی محمد اور دیگر شریک ہوئے۔ خورشید صاحب نے میٹرک اور پی ٹی سی کے امتحان میںاول دوم اور سوم آنے والے طلباء میں میڈل اور اسناد تقسیم کیں۔ اس موقع پر انہوں تعلیم کے حوالے سے بہت اہم خطاب کیا اور بتایا کہ اُن کے والد سکول میں صدر معلم تھے۔ تقریب کے بعد وہ ہمارے گھر تشریف لائے اور اس طرح ان سے ایک اور یادگار ملاقات ہوئی۔انہوں اپنی زندگی کا آخری خطاب وکلاء کنوینشن میرپو ر میں١٠مارچ ١٩٨٨ء کو کیا ۔ انہوں نے وہ تاریخ ساز پیغام دیا جو آج بھی سب کے لیے مشعل راہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انسان آتے جاتے رہتے ہیں مگر اُن کے اصول ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور جو لوگ اصولوں کی خاطر زندہ رہتے ہیں وہ ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتے ہیں۔ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی خاطر جدوجہد کرنے والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ۔ بلاشبہ انہوں نے بالکل درست کہا تھا۔ وہ آج بھی لوگوںکے دلوں میں زندہ ہیں اور اُن کے لیے جو احترام اور عزت ہے وہ شائد کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ اُن کے مخالفین بھی اُن کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں۔ ان دامن ہر طرح کی کرپشن، لالچ اور مالی بد دیانتی سے پاک رہا جو آج کل کے سیاستدانوں کا طرہ امتیاز ہے۔ قائد اعظم کے سیکریٹری، آزادکشمیر کے صدر اور قائد حزب اختلاف رہنے کے باوجود بیرسٹر کے ایچ خورشید وہ پوری عمر کرائے کے مکان میں رہے، وفات پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہوئے ہوئی ا ور مرتے وقت جیب سے صرف ٣٧ روپے نکلے۔ کیا آج پورے پاکستان اور آزادجموں کشمیر میں قومی سطحکا ایک بھی رہنما ہے جو اُن جیسا ہو۔
خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را۔

اپنا تبصرہ لکھیں