افکار تازہ
بچوں کے ادب میں ایک منفرد اضافہ
عارف محمود کسانہ
اس حقیقت کا اعتراف تو اکثر کیا جاتا ہے کہ بچے ہمارا مستقبل ہیں لیکن ان کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے ذمہ داری اس طرح سے ادا نہیں کی جارہی جواس کا تقاضاہے۔مستقبل کے معماروں کی فکری تربیت اور دینی تعلیمات کی طرف توجہ نہیں دی جارہی جو قرآن حکیم اور سوہ حسنہ کی روشنی میں کی جائے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہیں یا تو نوجوان نسل بے راہ روی کی طرف جارہی ہے اور یا انتہا پسندی کی طرف۔ ہمارے میڈیا کو لیں، بہت زیادہ ٹی وی چینل ، اخبارات اور آن لائن ویب سائیٹس کی موجودگی کے باوجود نوجوان نسل اور بچوں کو بالکل نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ٹی وی پروگراموں میں سب کچھ دیکھایا جاتا ہے ماسوائے بچوں کے پروگراموں کے۔ اس وقت بر شمار کالم نگار، ادیب اور منصف ہیں لیکن کتنے ہیں جو بچوں کے لئے لکھ رہے ہیں۔ آج ہم بچوں کو نظر انداز کررہے ہیں تو مستقبل میں کس قسم کی قوم تیار ہوگی۔ معصوم ذہنوں میں آنے والے سوال ہوتے تو بہت چھوٹے اور سادہ ہیں لیکن اُن کے جواب بعض اوقات اتنے بھی آسان نہیں ہوتے ۔لیکن اس بات کی ضرورت ہے کہ ان کے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کے ایسے جواب دیئے جائیں کہ وہ مطمئن ہوجائیں ۔ اسی اہمیت کے پیش نظر بچوں کی جانب سے کیئے گئے سوالات کے جوابات کو دلچسپ کہانیوں کی صورت میں لکھنا شروع ہوا جسے بچوں کے ساتھ بڑوں نے بھی بہت پسند کیا۔ جب یہ کہانیاں شائع ہوناشروع ہوئیں تو بہت سے قارئین کی جانب سے اس خاہش کا اظہار کیا گیا کہ انہیں ایک کتاب کی صورت میں ہونا چاہیے تاکہ یہ مستقل صورت میں بچوں اور والدین کے پاس ہوں۔اس خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے اسے بچوں کے لئے دلچسپ اور انوکھی کہانیاں کے نام سے شائع کردیا گیا ہے اور یہ www.amazon.com پر دستیاب ہے۔ پاکستان میں اسے نیشنل بک فاؤنڈیشن شائع کرہی ہے۔
اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ بچے جو کہ مستقبل کے معمار ہیں اُن کی تعلیم و تربیت اس اندازسے کی جائے کہ وہ سچے مسلمان، اچھے انسان، محب وطن اور باوقار شہری بنیں ۔ وہ اپنے دل اور دماغ کے اطمینان کے ساتھ اپنے دین کی تعلیمات کو سمجھیں اور اُن پر عمل کرکے اپنی زندگی بسر کریں ۔ امید ہے کہ یہ کتاب بچوں کے ادب میں ایک خوبصورت اضافہ ہو گی اوراس سے بچوں کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی تربیت مل سکے گی۔ اُن کااسلام کی بنیادی باتوں کے بارے میں تصور بہتر ہوگا۔پاکستان سے باہر جن ممالک میں ایسے بچے رہتے ہیں جو اردو زبان سمجھ تو لیتے ہیں لیکن خود نہیں پڑھ سکتے وہاں بڑوں کو چاہیے کہ وہ بچوں کو یہ کہانیاں پڑھ کر سنائیں۔ بڑے بھی جب ا ن کہانیوں کو پڑھیں گے تو انہیں بھی پڑھنے میں مزا آئے گا کیونکہ یہ کتا ب آٹھ سال سے اسی سال کی عمر کے بچوں کے لیے ہے۔
اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف ادیب ، محقق اور ماہر اقبالیات پروفیسر محمد شریف بقا صاحب لکھتے ہیں کہ جب سے یہ عالم رنگ و بو معرض وجود میں آیا ہے، اُس وقت سے لے کر اب تک انسان کسی نہ کسی رنگ کہانیاں سننے اور اُنہیں بیان کرنے کا عادی ہے ۔ ڈاکٹر عارف محمود کسانہ نے بھی حکایت نویسی کا مجموعہ تیار کیا ہے تاکہ ہمارے بچے انہیں پڑھ کر اپنی زندگی کو سنوار سکیں اور ان کی روشنی میں اپنی ملّی زندگی کے لیے بھی کارآمد ہوں ۔ امید واثق ہے کہ ہمارے بچے اور بچیاں اِن حیات بخش اور دلچسپ حکایات سے متاثر ہو کر دوسروں کے لیے عمدہ نمونہ بن جائیں گے ۔ یہ امر باعث صد افسوس ہے کہ ہمارے اکثر اہل علم وادب نے ہماری نئی نسل خصوصاََ یورپ اور امریکہ وغیرہ میں مقیم بچوں اور بچیوں کے بارے میں بہت کم کتب تصنیف یا مرتب کی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نئی نسل کا ہماری ملی روایات اور تاریخ وعلم سے گہرا تعلق قائم رہے تو پھر ہمیں اپنے نوجوانوں اور بچوں کو اپنے علمی و ادبی ذخائر سے واقف رکھنا ہوگا۔ یہ بات وجہ صد مسرت ہے کہ محترم عارف محمود کسانہ صاحب نے نسل نو کے لیے ایک کتاب تصنیف کی ہے جس میں دور جدید کی علمی اکتشافات کی روشنی میں اسلامی تاریخ سے متعلق کہانیاں اور قرآنی تعلیمات پر مبنی مختصر مگر دلچسپ انداز میں لکھی ہیں۔ ان کی یہ کاوش یقیناََ قابلِ ستائش اور لائقِ تقلید ہے۔
سویڈن میں پاکستان کے سفیر جناب طارق ضمیر نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنا ایک مشکل کام ہے جس کے لکھنے والے کو نہ صرف بچوں کے رجحانات کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے بلکہ کہانی کو معلوماتی بنانے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی بنانا پڑتا ہے ۔ آج کل بچوں کے لیے، بالخصوص دیار غیر میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والے بچوں کے لئے، مختصر مگر معیاری کہانیوں کی شدید قلت محسوس کی جا رہی ہے۔عارف کسانہ صاحب کی کہانیاں بچوں کی پرورش میں بہت مدد گار ثابت ہو ں گی۔ یہ کہانیاں ہمارے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں امید ہے بہت سے بچوں میں یہ کہانیاں اردو ادب کے ساتھ پائیدار رشتے کو استوار کریں گی اور اس بات میں معا ون ثابت ہونگی ۔
ڈنمارک میں مقیم معروف ادیب نصر ملک جنہوں نے بچوں کے لیے بہت سی کتب لکھی ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ یورپ میں رہتے ہوئے ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے بچے موجودہ جدید سائنسی و مادی دور میں اپنے دین اور تہذیب و ثقافت کے حوالے سے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ انہیں سکولوں میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ اُن کے گھریلو ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا اور بچے مختلف سوالوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔ایک انتہائی پریشان کن مرحلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ان بچوں کے دینی وتہذیبی اور قومی تشخص کے حوالے سے اٹھائے جانے والے سوالات کے مناسب اور بڑے احسن طریقے سے جواب دینے میں والدین کی کوششیں بھی بیشتر اوقات ناکافی ہوتی ہیں۔پاکستان میں بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے اور ایک انتہائی پریشان کن مسئلہ یہ بھی ہے کہ بچوں کی صحیح اسلامی خطوط پر تربیت کیسے کی جائے کہ نونہالان وطن مستقبل میں معاشرے کی تعمیر و ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکیں اور اسلامی طرز حیات اپناتے ہوئے دنیا اور آخرت میں سرخ رو ہو سکیں ۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر عارف محمود کسانہ نے اس ملّی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے بچوں کے لیے ایسی کہانیاں اور حکایات لکھی ہیں جو خالصتاً اسلامی سوچ و فکر کی عکاسی کرتے ہوئے بچوں کے لیے بڑی دلچسپ ہیں۔ یہ کہانیاں قرآن حکیم اور فرمودات نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کی روشنی میں اُنہیں اُن سوالوں کے مدلّل جوابات بھی مہیا کرتی ہیں جو معصوم ذہنوں میں ابھرتے ہیں ۔
بچوں کے لیے کسی مخصوص سوچ و فکر اور نظریے کے تحت ادب تخلیق کرنا بہت ہی کٹھن کام ہے ۔ لیکن ڈاکٹر عارف محمود کسانہ نے بچوں کی صالح تربیت کے لیے جو کہانیاں تخلیق کی ہیں انہیں پڑھ کر بلاخوفِ تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ نونہالان وطن کے لیے قلبی محبت سے سرشار ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ہر قسم کی فرقہ بندی، رنگ و نسل اور ذات برادری سے ہٹ کر ایک مضبوط قومی جذبے اورخالص اسلامی اصولوں پر مبنی طرز حیات اختیار کریں ۔ ان کہانیوں میں جس طرح قرآن و سنت کو بنیاد بناتے ہوئے، عصر حاضر کے پیچیدہ مسائل کے آسان ترین جوابات دینے کے لیے بیحد سلیس و سادہ زبان میں بطور مثال یوں پیش کیا گیا ہے کہ بچوں کے لیے انہیں ذہن نشین رکھنا بہت ہی آسان ہے اور یہی ان کہانیوں کی کامیابی ہے ۔ مجھے امید ہے کہ بچے جب ان کہانیوں کو پڑھیں گے یا والدین خود انہیں پڑھ کر سنائیں گے تو وہ طبعی طور پر ان میں دلچسپی لیں گے اور خود کو اُسی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں گے جوانہیں اِن کہانیوں اور حکایات میں ایک صحیح انسان بننے کے لیے موجود ہے۔مجھے امید ہے کہ کہانیوں کی یہ کتاب بچوں کے لیے بیحد مفید اور سبق آموز ثابت ہو گی اور ڈاکٹر عارف محمود کسانہ کی اِس کوشش کو سراہا جائے گا ۔ انشاء اللہ ۔
اس حقیقت کا اعتراف تو اکثر کیا جاتا ہے کہ بچے ہمارا مستقبل ہیں لیکن ان کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے ذمہ داری اس طرح سے ادا نہیں کی جارہی جواس کا تقاضاہے۔مستقبل کے معماروں کی فکری تربیت اور دینی تعلیمات کی طرف توجہ نہیں دی جارہی جو قرآن حکیم اور سوہ حسنہ کی روشنی میں کی جائے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہیں یا تو نوجوان نسل بے راہ روی کی طرف جارہی ہے اور یا انتہا پسندی کی طرف۔ ہمارے میڈیا کو لیں، بہت زیادہ ٹی وی چینل ، اخبارات اور آن لائن ویب سائیٹس کی موجودگی کے باوجود نوجوان نسل اور بچوں کو بالکل نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ٹی وی پروگراموں میں سب کچھ دیکھایا جاتا ہے ماسوائے بچوں کے پروگراموں کے۔ اس وقت بر شمار کالم نگار، ادیب اور منصف ہیں لیکن کتنے ہیں جو بچوں کے لئے لکھ رہے ہیں۔ آج ہم بچوں کو نظر انداز کررہے ہیں تو مستقبل میں کس قسم کی قوم تیار ہوگی۔ معصوم ذہنوں میں آنے والے سوال ہوتے تو بہت چھوٹے اور سادہ ہیں لیکن اُن کے جواب بعض اوقات اتنے بھی آسان نہیں ہوتے ۔لیکن اس بات کی ضرورت ہے کہ ان کے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کے ایسے جواب دیئے جائیں کہ وہ مطمئن ہوجائیں ۔ اسی اہمیت کے پیش نظر بچوں کی جانب سے کیئے گئے سوالات کے جوابات کو دلچسپ کہانیوں کی صورت میں لکھنا شروع ہوا جسے بچوں کے ساتھ بڑوں نے بھی بہت پسند کیا۔ جب یہ کہانیاں شائع ہوناشروع ہوئیں تو بہت سے قارئین کی جانب سے اس خاہش کا اظہار کیا گیا کہ انہیں ایک کتاب کی صورت میں ہونا چاہیے تاکہ یہ مستقل صورت میں بچوں اور والدین کے پاس ہوں۔اس خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے اسے بچوں کے لئے دلچسپ اور انوکھی کہانیاں کے نام سے شائع کردیا گیا ہے اور یہ www.amazon.com پر دستیاب ہے۔ پاکستان میں اسے نیشنل بک فاؤنڈیشن شائع کرہی ہے۔
اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ بچے جو کہ مستقبل کے معمار ہیں اُن کی تعلیم و تربیت اس اندازسے کی جائے کہ وہ سچے مسلمان، اچھے انسان، محب وطن اور باوقار شہری بنیں ۔ وہ اپنے دل اور دماغ کے اطمینان کے ساتھ اپنے دین کی تعلیمات کو سمجھیں اور اُن پر عمل کرکے اپنی زندگی بسر کریں ۔ امید ہے کہ یہ کتاب بچوں کے ادب میں ایک خوبصورت اضافہ ہو گی اوراس سے بچوں کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی تربیت مل سکے گی۔ اُن کااسلام کی بنیادی باتوں کے بارے میں تصور بہتر ہوگا۔پاکستان سے باہر جن ممالک میں ایسے بچے رہتے ہیں جو اردو زبان سمجھ تو لیتے ہیں لیکن خود نہیں پڑھ سکتے وہاں بڑوں کو چاہیے کہ وہ بچوں کو یہ کہانیاں پڑھ کر سنائیں۔ بڑے بھی جب ا ن کہانیوں کو پڑھیں گے تو انہیں بھی پڑھنے میں مزا آئے گا کیونکہ یہ کتا ب آٹھ سال سے اسی سال کی عمر کے بچوں کے لیے ہے۔
اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف ادیب ، محقق اور ماہر اقبالیات پروفیسر محمد شریف بقا صاحب لکھتے ہیں کہ جب سے یہ عالم رنگ و بو معرض وجود میں آیا ہے، اُس وقت سے لے کر اب تک انسان کسی نہ کسی رنگ کہانیاں سننے اور اُنہیں بیان کرنے کا عادی ہے ۔ ڈاکٹر عارف محمود کسانہ نے بھی حکایت نویسی کا مجموعہ تیار کیا ہے تاکہ ہمارے بچے انہیں پڑھ کر اپنی زندگی کو سنوار سکیں اور ان کی روشنی میں اپنی ملّی زندگی کے لیے بھی کارآمد ہوں ۔ امید واثق ہے کہ ہمارے بچے اور بچیاں اِن حیات بخش اور دلچسپ حکایات سے متاثر ہو کر دوسروں کے لیے عمدہ نمونہ بن جائیں گے ۔ یہ امر باعث صد افسوس ہے کہ ہمارے اکثر اہل علم وادب نے ہماری نئی نسل خصوصاََ یورپ اور امریکہ وغیرہ میں مقیم بچوں اور بچیوں کے بارے میں بہت کم کتب تصنیف یا مرتب کی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نئی نسل کا ہماری ملی روایات اور تاریخ وعلم سے گہرا تعلق قائم رہے تو پھر ہمیں اپنے نوجوانوں اور بچوں کو اپنے علمی و ادبی ذخائر سے واقف رکھنا ہوگا۔ یہ بات وجہ صد مسرت ہے کہ محترم عارف محمود کسانہ صاحب نے نسل نو کے لیے ایک کتاب تصنیف کی ہے جس میں دور جدید کی علمی اکتشافات کی روشنی میں اسلامی تاریخ سے متعلق کہانیاں اور قرآنی تعلیمات پر مبنی مختصر مگر دلچسپ انداز میں لکھی ہیں۔ ان کی یہ کاوش یقیناََ قابلِ ستائش اور لائقِ تقلید ہے۔
سویڈن میں پاکستان کے سفیر جناب طارق ضمیر نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنا ایک مشکل کام ہے جس کے لکھنے والے کو نہ صرف بچوں کے رجحانات کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے بلکہ کہانی کو معلوماتی بنانے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی بنانا پڑتا ہے ۔ آج کل بچوں کے لیے، بالخصوص دیار غیر میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والے بچوں کے لئے، مختصر مگر معیاری کہانیوں کی شدید قلت محسوس کی جا رہی ہے۔عارف کسانہ صاحب کی کہانیاں بچوں کی پرورش میں بہت مدد گار ثابت ہو ں گی۔ یہ کہانیاں ہمارے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں امید ہے بہت سے بچوں میں یہ کہانیاں اردو ادب کے ساتھ پائیدار رشتے کو استوار کریں گی اور اس بات میں معا ون ثابت ہونگی ۔
ڈنمارک میں مقیم معروف ادیب نصر ملک جنہوں نے بچوں کے لیے بہت سی کتب لکھی ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ یورپ میں رہتے ہوئے ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے بچے موجودہ جدید سائنسی و مادی دور میں اپنے دین اور تہذیب و ثقافت کے حوالے سے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ انہیں سکولوں میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ اُن کے گھریلو ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا اور بچے مختلف سوالوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔ایک انتہائی پریشان کن مرحلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ان بچوں کے دینی وتہذیبی اور قومی تشخص کے حوالے سے اٹھائے جانے والے سوالات کے مناسب اور بڑے احسن طریقے سے جواب دینے میں والدین کی کوششیں بھی بیشتر اوقات ناکافی ہوتی ہیں۔پاکستان میں بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے اور ایک انتہائی پریشان کن مسئلہ یہ بھی ہے کہ بچوں کی صحیح اسلامی خطوط پر تربیت کیسے کی جائے کہ نونہالان وطن مستقبل میں معاشرے کی تعمیر و ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکیں اور اسلامی طرز حیات اپناتے ہوئے دنیا اور آخرت میں سرخ رو ہو سکیں ۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر عارف محمود کسانہ نے اس ملّی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے بچوں کے لیے ایسی کہانیاں اور حکایات لکھی ہیں جو خالصتاً اسلامی سوچ و فکر کی عکاسی کرتے ہوئے بچوں کے لیے بڑی دلچسپ ہیں۔ یہ کہانیاں قرآن حکیم اور فرمودات نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کی روشنی میں اُنہیں اُن سوالوں کے مدلّل جوابات بھی مہیا کرتی ہیں جو معصوم ذہنوں میں ابھرتے ہیں ۔
بچوں کے لیے کسی مخصوص سوچ و فکر اور نظریے کے تحت ادب تخلیق کرنا بہت ہی کٹھن کام ہے ۔ لیکن ڈاکٹر عارف محمود کسانہ نے بچوں کی صالح تربیت کے لیے جو کہانیاں تخلیق کی ہیں انہیں پڑھ کر بلاخوفِ تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ نونہالان وطن کے لیے قلبی محبت سے سرشار ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ہر قسم کی فرقہ بندی، رنگ و نسل اور ذات برادری سے ہٹ کر ایک مضبوط قومی جذبے اورخالص اسلامی اصولوں پر مبنی طرز حیات اختیار کریں ۔ ان کہانیوں میں جس طرح قرآن و سنت کو بنیاد بناتے ہوئے، عصر حاضر کے پیچیدہ مسائل کے آسان ترین جوابات دینے کے لیے بیحد سلیس و سادہ زبان میں بطور مثال یوں پیش کیا گیا ہے کہ بچوں کے لیے انہیں ذہن نشین رکھنا بہت ہی آسان ہے اور یہی ان کہانیوں کی کامیابی ہے ۔ مجھے امید ہے کہ بچے جب ان کہانیوں کو پڑھیں گے یا والدین خود انہیں پڑھ کر سنائیں گے تو وہ طبعی طور پر ان میں دلچسپی لیں گے اور خود کو اُسی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں گے جوانہیں اِن کہانیوں اور حکایات میں ایک صحیح انسان بننے کے لیے موجود ہے۔مجھے امید ہے کہ کہانیوں کی یہ کتاب بچوں کے لیے بیحد مفید اور سبق آموز ثابت ہو گی اور ڈاکٹر عارف محمود کسانہ کی اِس کوشش کو سراہا جائے گا ۔ انشاء اللہ ۔