رحمتِ سیدِؐ لولاک پہ کامل ایمان
امتِ سیدِؐ لولاک سے خوف آتا ہے
افتخار عارف
کالم نگار صدف مرز
چند مسلمانوں نے جو کیا پورے اسلام اور اس کی تعلیمات پر حملہ آوروں کو دعوت دینے کے مترادف ہے.
آپ اب لاکھ یہاں بیٹهے اسلام کو امن و آشتی کا دین ثابت کرنے کی کوشش میں تقاریر پیش کیجئے سب صدا بصحرا ہے
یہاں اب بچوں کو سکولوں میں…..
بڑوں کو ملازمت پر
عام شہری کو …. کوچہ و بازار میں …
نفرت کی نظر سے دیکها جا رہا ہے.
جلتی پر تیل گرا کر اب بهڑکتے شعلوں کی نظر ہماری نئی نسل ہے جو معذرت خواہانہ انداز میں صفائیاں پیش کر رہی ہے .
کچھ اسلام سے متنفر ہو رہے ہیں
اپنی نسبت پر نادم ہو رہے ہیں.
پیرس کے
مزاحیہ ہفت روزہ میگزین
Charlie Hebdo
’’شارلی ایبدو ‘‘ کے دفتر میں نقاب پوش مسلح افراد کی اس مجنونانہ کاروائی سے
میگزین کے سینتالیس سالہ مدیر اعلیٰ ،Stephane Charbonnier
4کارٹونسٹوں سمیت 10صحافی اور دو پولیس اہلکاروں سمیت 12افراد ہلاک اور 20زخمی ہو گئے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق نزدیکی چهت پر سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہو رہی تهیں
عملہ اپنی ہہفتہ وار ادارتی میٹنگ میں مشغول تها جب کلاشنکوفوں سے مسلح افراد نے ان پر آگ برسانا شروع کی اور ناموسِ رسالت کی توہین کا بدلہ لینے کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے.
اگرچہ یہ میگزین
ہمیشہ سے حکومت پر تنقید اور نسائی معاملات میں بے باکانہ اطہار اور مختلف مذاہب پر طنز و مزاح کی وجہ سے ہمیشہ تنوید و احتجاج کا نشانہ رہا ہے اور 2011 میں اس پر آتشگیر بموں سے یلغار بهی کی گئی. مدیر اعلیٰ کو دھمکیاں بهی دی گئیں لیکن اتنی بربادی اور کامیاب منصوبہ بندی سے ہلاکت پہلی دفعہ دیکهنے میں آئی ہے جس نے چشم زدن سے مشتعل اور غمزدہ ہجوم کو شاہراہوں پر لا کهڑا کیا ہے.
واضح رہے کہ
اس حملے کے بعد
پیرس میں یہودیوں کے معبد کے قریب کار بم کا دھماکہ بهی ہوا جس نے خوف و ہراس اور نفرت کی چڑهتی لہر کی شدت میں اضافہ کر دیا.
ایک دن میں دہشت گردی کے دو واقعات نے فرانس اور یورپ کو ہلا کر رکھ دیا.
دنیا بهر سے فرانس کو تعزیتی پیغامات بهیجے گئے
جرمنی ، روس ، امریکہ اور برطانیہ سے فوری یکجہتی کا اظہار ہوا اور مذمت کے بیانات جاری کیے گئے.
اور بہت سے ممالک میں مسلمانوں کے خلاف جلوس نکالے گئے.
ترکی ، سعودیہ، عرب لیگ اور جامعہ الازھر نے اس واقعے کی مزمت کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ یہ سب اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور تشدد کو اسلام سے مربوط نہ کیا جائے.
البتہ
شام میں دولت اسلامیہ (داعش) سے ابومصعب نے غیرت مسلم کے اس اظہار پر مسرت کا اظہار کیا اور
اسلام کے شیروں
کو بدلہ لینے پر داد پیش کی.
اس ڈرامائی حملے کے نتیجے میں
بہت سے ممالک میں مسلمانوں کے خلاف جلوس نکالے گئے
پیرس میں 5 ہزار اور لیون میں دس ہزار افراد نے اس حملہ کیخلاف احتجاجی جلوس میں شامل ہوئے.
اس حملے کے بعد
پیرس ہی کے ایک میٹرو سٹیشن پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک خاتون پولیس اہلکار جاں بحق ہو گئی.
دسمبر میں
ایک چالیس سالہ ادمی نے نعرہ تکبیر بلند کرنے کے بعد متعدد لوگوں پر گاڑی چڑها دی تهی اور بعد کے بیان میں کہا کہ وہ فلسطین کے بچوں کا بدلہ لے رہا ہے.
دو روز بعد
افریقی ملک برنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے نعرہ تکبیر پڑها اور پولیس کے اہلکاروں پر چاقو سے حملہ کر دیا.
پوری دنیا میں بالعموم اور یورپ میں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے.
یہ امت مسلمہ کے لیے نہ صرف ایک لمحہ فکریہ ہے بلکہ ایک فوری فعال متحرک اور منظم حکمتِ عملی کے زریعے نفرت کے اس اظہار پر قابو پانا از حد ضروری ہے ورنہ ان معاشروں میں انتقام و تنافر جنگل کی آگ کی طرح پهیل رہی ہے جس کا نشانہ یہاں پیدا ہونے والے اور پرورش پانے والی وہ نسل ہو گی جو اپنے والدین کے ممالک کے لیے یکسر اجنبی اور اپنے رہائشی ممالک کے لیے ایک اچھوت کی صورت اختیار کر جائے گی.
اس وقت عالمی سطح پر علماء و فقہاء اور اسلامی ممالک کے صدور کی فوری اور مشترکہ کاوشوں
کی اشد صرورت ہے.
انتہا پسندوں کی منظم اور انفرادی قاتلانہ حملوں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے. ایسے معاملات سے نمٹنے کے لیے اجتماعی طور پر اصول وضع کرنے ہوں گے اور ان کے مطابق احتجاجی مظاہرے کئے جانے چاہئیں.
ڈنمارک کے اخبارات پولیٹیکنز اور ہولینڈ پوسٹن بهی تشویش کا شکار ہیں اانہوں نےاپنے حفاظتی انتظامات بھی مزید سخت کردیئے ہیں۔
ان سارے عوامل کی وجہ سے ان ممالک میں رہنے والے عام شہریوں کے اندازِ فکر میں منفی تبدیلی انا نا گزیر ہے.
ارباب اختیار آنکهیں کهولیں
خواب خرگوش اور شتر مرغ کی حکمتِ عملی کا وقت گزر چکا.