افغانستان میں خواتین پر مظالم کی انتہاء

افغانستان میں عورتوں کے حالات دن بدن بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وقت آٹھ لاکھ افغان مہاجر وطن واپس جانے کے لیے تیار ہیں۔ان کی اکثریت بڑے شہروں کی جانب روانہ ہو رہی ہے جہاں عورتوں پر تشدد،حملے اور جبری شادیوں کے امکانات ذیادہ ہیں۔یہ رپور ٹ مہاجروں کی ایک آرگنائیزیشن نے تیار کی ہے۔
دس میں سے سات عورتوں نے کہا کہ انہوں نے کبھی اسکول کی شکل نہیں دیکھی۔اس کے علاوہ انہیں دوسروں کے ساتھ ملنے جلنے سے اور رابطہ رکھنے سے بھی روکا جاتا ہے۔دیہاتوں کے مقابلے میں شہروں کی صورتحال اس طرح سے بہتر ہے کہ یہاں عورتیں تعلیم حاصل کرتی ہیں اور شادی کے وقت ان کی عمریں ذیادہ ہو جاتی ہیں۔
ہمیں جانوروں کی طرح پیسے کی خاطر اجنبی بوڑہے مردوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔ہمیں اپنا جیون ساتھی منتخب کرنے کا کاوئی حق نہیں۔ہمارے حقوق پامال کیے جاتے ہیں۔یہ بیان ایک تئیس سالہ افغان عورت کا ہے۔افغانستان میں مہاجر وں کے مددگار پراسانت نائیک نے کہا کہ افغان عورتیں بھوک اور بیماریوں کی وجہ سے اپنے بچے اور کئی خاندان کے افراد کھو چکی ہیں۔
جمعرات کے روز ایک ستائیس سالہ عورت کو قرآن جلا نے کے الزام میں جلا دیا گیا۔جبکہ ایک تفتیشی پولیس آفیسر کے مطابق وہ عورت بے قصور تھی۔پولیس آفیسر نے بتایا کہ اس نے تمام حقائق اور ثبوت چیک کیے ہیں جن سے اس بات کا پتہ نہیں چلتا کہ فرخندہ نے قرآن جلایا تھا۔فرخندہ کو حوالات میں لے جا کر مارا پیٹا گیا اور پھر اسے جلا کر اس کا جلا ہوا جسم دریائے قابل میں پھینک دیا گیا۔
اس واقعے میں پولیس کے آٹھ افراد ملوث ہیں جن میں سے کسی نے اسے جلنے سے روکنے کی کوشش نہیں
کی۔ اس بھیانک واقعے کی موبائیل سے بنائی جانے والی وڈیو سوشل میڈیا پہ دیکھی جا سکتی ہے۔
NTB/UFN

اپنا تبصرہ لکھیں