اسے پسند ہے رت کون سی کہے تو سہی

غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
 
 
اسے پسند ہے رت  کون سی کہے تو سہی
مرے بغیچے کی آغوش میں کھلے تو سہی
 
ہے اک غزل مترنم وہ حسن میں ملبوس
اسے سنوں گا بھی، دیکھوں گا بھی، ملے تو سہی
 
میں تیری راہ کو کر دونگا مختصر بیحد
قدم ترا مری جانب کوئی اٹھے تو سہی
 
یہ کیسی شمع ہے جو وقت پر نہیں جلتی
ہے شمع تو شب_تاریک میں جلے تو سہی
 
بری لگی ہے  کوئی بات تو بتائے تو
چلو نہ بات کرے، کم سے کم لڑے تو سہی
 
فضا میں گونج اٹھی قہقہوں کی موسیقی
مرے لطیفے پہ دل کھول کر ہنسے تو سہی
 
گلوں سے آتا ہے الفت میں ذائقہ جاوید
گلے سنے نہ ہوں اس نے گلے کئے تو سہی
   
 

اپنا تبصرہ لکھیں