یہ غیرت ایمانی کا امتحان ہے! 

ایم ودودساجد
خدا کا شکر ہے کہ طارق فتح کے فتنہ کے خلاف قوم کے غیورافرادکئی محاذپربرسرپیکار ہیں۔نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی اس شیطانی فتنہ کے خلاف بے چینی پائی جاتی ہے۔اس کی ہرزہ سرائیوں کے خلاف باقاعدہ علمی بحث کا چیلنج بھی دیدیا گیا ہے اور خود اس کے اور زی ٹی وی کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں کم از کم دوپٹیشن اور ملک کے مختلف پولس تھانوں میں متعددشکایتیں درج کرادی گئی ہیں۔سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں سے متعدد افراد سرگرم ہیں اور آن لائن پٹیشن کا سلسلہ بھی جاری ہے۔جن کے اندر شرم وحیا کی کچھ رمق باقی تھی انہوں نے از خود یا دوسروں کے ذریعہ شرم دلانے پراس مردودکے ساتھ بحث سے انکار کردیا ہے ۔اتنا کچھ تو ہوگیا ہے لیکن ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔
اس ہفتہ موضوعات کی کمی نہیں تھی۔قومی سطح پر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی۔میں نے ایک بین الاقوامی موضوع پر کام شروع بھی کردیا تھا لیکن گزشتہ شب مجھے اپنا موضوع تبدیل کرنا پڑا۔اس کے کئی اسباب ہیں۔اولاًتو اس مہم میں شامل ہونے کے لئے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے قارئین اوراپنے احباب سے اپیل کرنی ہے کہ وہ بعض دردمند ساتھیوں کے ذریعہ شروع کی گئی انسدادی مہم میں ان کا ساتھ دیں۔اس سلسلہ میں سب سے اہم کام شکاگو میں علوم نبوی کے درس وتدریس میں مصروف مفتی یاسر ندیم الواجدی نے کیا۔انہوں نے فتح کے فتوے کے خلاف سرجیکل اسٹرائک کے عنوان سے ایک ویڈیو مہم شروع کی اور اس کی ہرزہ سرائیوں پر کھلی علمی بحث کا چیلنج دیا۔مفتی صاحب نے بتایا کہ وہ مردود علمی بحث کے چیلنج کو قبول نہیں کر رہا ہے۔علمی سطح پر یہ پہلی کامیابی تھی۔مجھے یہاں کسی پر نقدونظر کرنامقصودنہیں ہے۔لیکن اتنی بات تو ضرور کہی جاسکتی ہے کہ اگر ایک ہندوستانی صاحب ایمان ‘ہزاروں میل دور شکاگو میں بیٹھ کر ہندوستانی مسلمانوں کے سروں پر مسلط اس فتنہ کے خلاف اتنی جرات سے علمی لڑائی شروع کرسکتا ہے تو ہندوستان میں موجود عبقری علمی شخصیات یہ کام کیوں نہیں کرسکتیں؟اگر ایسا ہوتا تو اس مردود کے جال میں پھنسنے کے لئے کم علم یا زیادہ پرجوش ٹی وی بازوں کو زی ٹی وی پر جانے کا موقع نہیں ملتا اور اس طرح یہ قوم اس مردود کے ہاتھوں رسوائی سے بچ جاتی۔مجھے آج ایک ویڈیو موصول ہوئی ہے جس میں خود مفتی یاسر صاحب نے کہا ہے کہ ہماری اپنی بداعمالیوں کے نتیجہ میں اللہ نے ہمارے سروں پر اس صورت میں ایک فتنہ مسلط کیا ہے۔
مفتی یاسر نے اپنی متعدد ویڈیوز میں بتایا کہ کس طرح اس مردود نے خلفاء راشدین‘ نبی آخرالزماںﷺ اور خود اللہ رب العزت اور اس کے کلام کی شان میں گستاخیاں کی ہیں۔یہ بات میں اپنے پچھلے مضمون میں بھی کہہ چکا ہوں کہ عصمت رسول کی شان میں گستاخی کو ایک ادنی سے ادنی مسلمان بھی برداشت نہیں کرسکتا۔سلمان رشدی نے ایک مردودکتاب لکھی تھی۔اس کے خلاف ہندوستان کے مسلمانوں نے احتجاج کیا اور اس پر یہاں پابندی لگ گئی۔ہم اتنا ہی کرسکتے تھے اور اسی کے مکلف بھی تھے۔ہندوستان میں رہ کر ہم قانونی اور آئینی طورپریہی کام کرسکتے تھے جو ہم نے کیا۔اسی طرح شیطانوں کی آلہ کار تسلیمہ نسرین کے خلاف بھی جابجا احتجاج ومظاہرے ہوئے۔آج بھی ان دونوں کو مسلمان کسی بھی عوامی پروگرام میں برداشت نہیں کرتے۔لیکن حیرت ہے کہ پاکستان کا ایک بھگوڑااور کناڈا کا شہری یہاں بالواسطہ طورپر حکومت کا مہمان ہوتا ہے اور ایک کھلا مسلم مخالف چینل اسے باقاعدہ ایک مسلسل پروگرام کا ٹھیکہ دیدیتا ہے اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔اس سلسلہ میں سب سے پہلے اس خاکسار نے 15جنوری 2017کواس مردود فتنہ سے آگاہ کرایا اور’دشمن امن کی میزبانی ‘کے عنوان سے ایک تفصیلی مضمون لکھا۔یہ مضمون ملک بھر میں شائع ہواجسے اخبارات اور سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں اور ویب سائٹس پرلاکھوں قارئین نے پڑھا۔اس کے پروگرام میں جاکر اس سے لاحاصل اور ذلت آمیز بحث کرنے والوں سے بھی میں نے گزارش کی کہ اس کے پروگرام میں نہ جائیں۔لیکن اس کے اگلے دوتین پروگراموں تک بعض ٹی وی بازچند ہزار ورپیوں کے لالچ میں رسوا ہونے کے لئے جاتے رہے۔خدا کا شکر ہے کہ اب وہ سلسلہ رک گیا ہے۔لیکن سنا ہے کہ ایک ملعون (جس کو قاسمی کہنے کو جی نہیں چاہتا اور جس کا نام بھی ملعون کے وزن پر ہے)آج بھی اس کی حمایت کو بے تاب ہے۔زی والوں نے اس پروگرام کے لئے ایسے ایسے جاہ پرست مولویوں کو بھی بحث میں بلالیاجنہیں کبھی کوئی پوچھتا نہ تھا۔ظاہر ہے ان سب جاہ پرستوں نے وہاں جاکر خود جو بھی حاصل کیا ہو لیکن اسلام اور مسلمانوں کی رسوائی کراکر ہی لوٹے۔
اس ضمن میں جن احباب نے مختلف سطحوں پر کام کیا ہے پوری ملت اسلامیہ کو ان کا شکرگزارہونا چاہئے۔مفتی یاسر کے بعد لندن میں مقیم urdumediamonitor.comکے ایڈیٹر محمد خان غزالی نے بھی اس مہم میں ساتھ دیا اور میرے انگریزی مضمون کی اشاعت میں بڑا کردار ادا کیا۔دیوبند میں مقیم رائے بریلی کے مولانامہدی حسن عینی نے بھی اس مہم کو بڑے پیمانے پر آگے بڑھایا۔انہوں نے بتایا کہ مختلف نکات پر مبنی ایک مضبوط پٹیشن دہلی ہائی کورٹ میں حفظ الرحمان خان‘فیضان خان اور فرح ہاشمی نے دائر کی ہے۔یہ پٹیشن سماعت کے لئے لسٹ ہوگئی ہے۔اور ممکن ہے کہ ایک دوروز میں وہ عدالت کے سامنے بحث یا ابتدائی کارروائی کے لئے آجائے۔اس کے علاوہ الہ آباد ہائی کورٹ اور اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں بھی رٹ دائر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بعض پر جوش احباب نے بتایا تھا کہ اس کے خلاف کئی سو شکایتیں مختلف تھانوں میں درج کرائی جاچکی ہیں لیکن ان شکایتوں پر کارروائی کیا ہوئی نہیں معلوم۔دکھ ہوا کہ سوشل میڈیا پر بعض مسلمان آپس میں دست بگریباں ہوگئے اور ’پہلے ہم نے کارروائی کی‘کا کریڈٹ لینے لگے۔انہیں شاید یہ خیال نہیں رہا کہ اس مردود کے خلاف ہر ممکن قانونی سطح کی کارروائی کا کریڈٹ یہاں دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں ملے گااور اسی کے لئے ہمیں اس کے خلاف میدان میں آنا بھی ہے۔یہاں ملنے والا کوئی بھی دنیاوی انعام عقبی میں ملنے والے انعام سے بڑا ہوہی نہیں سکتا۔اور اگر ہم نام ونمود کے لئے اس فتنہ کے خلاف کارروائی کریں گے تواس میں کامیابی ملنے کے امکانات بھی معدوم ہوجائیں گے۔یہ کام تو خالص اللہ کی رضا ‘ اسلام کی سرخروئی اور ناموس رسول ﷺ کے تحفظ کی خاطر کرنا تھا۔یہ آپ کیا کرنے لگے؟میرے تمام احباب ‘بشمول اخبارات یہی کہتے ہیں کہ اس سلسلہ کا سب سے پہلا مضمون لکھ کر میں نے ہی(یعنی ایم ودودساجدنے )متوجہ کرایا۔لیکن اگر اس کا سہر’’ا آپ‘‘ کے سرباندھنے سے کامیابی ملتی ہو تو میں یہ تسلیم کرنے کو تیار ہوں کہ میں نے اس سلسلہ میں سب سے پہلا مضمون نہیں لکھا۔
بہرحال اب بھی دیر نہیں ہوئی۔خدا کے لئے اس جال سے باہر نکلئے۔آئیے شانے سے شانہ ملاکر اس مردود فتنہ کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں۔اس سلسلہ میں تین طریقوں سے کام کیا جاسکتا ہے۔عدالت‘آن لائن پٹیشن اورایک ہی وقت میں ٹویٹرپر ٹرینڈ۔ عدالت والا کام بطریق احسن ہورہا ہے۔آن لائن پٹیشن بھی جاری ہے۔ اس کے لئے facebook.com/muftiyasirnadeem پرخود کو رجسٹرڈکراسکتے ہیں۔اس علاوہ آئندہ 14فروری2017بروز منگل دوپہر ایک بجے سے شام چھ بجے تک ٹویٹرپرban_fatahkafatwa ٹرینڈ چلایا جائے گا۔رائے عامہ ہموار کرنے کا یہ ایک بہت موثر طریقہ ہے۔مفتی یاسر نے اس سلسلہ میں اپیل کی ہے کہ ایک ہی وقت میں ہزاروں احباب ٹویٹرپر ban fatah ka fatwa لکھ کر ٹویٹ کریں۔اس کے لئے https://www.facebook.com/events/407752802899691/ لنک پر جاکر خود کو رجسٹرڈکرائیں۔اس عمل سے ایک ہی وقت میں پوری دنیا کو معلوم ہوگا کہ ایک شیطان ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب وثقافت اور ہم آہنگی کو آگ لگانے کے لئے بے لگام گھوم رہا ہے اور حکومت ہنداس کی ضیافت ومیزبانی کر رہی ہے۔کیا معلوم اللہ کے حضور اس وقت ہمارا یہ عمل بخشش کا سبب بن جائے جب ہر شخص حساب وکتاب کے کٹگھرے میں کھڑا ہوگا اور محض ایک نیکی کی کمی کے سبب تڑپ رہا ہوگا۔کیا ہم تاجدار مدینہ کی ناموس کی خاطراپنی غیرت ایمانی کا یہ معمولی سا امتحان دینے کے لئے تیار ہیں۔؟
اپنا تبصرہ لکھیں