یہ جو تم نے کردیا ہے..

 ایم ودودساجد
ردعمل
میں اس طرح کے موضوعات کو اکثرعمداً نظر انداز کرتا ہوں۔لیکن کبھی کبھی ضروری ہوجاتا ہے کہ ان پر بھی بات کی جائے۔پاکستان سے آنے والی ایک خبر کی تفصیل نے طبیعت میں سخت تکدر پیدا کردیا۔اس سے پہلے ہندوستان کے مالدہ (مغربی بنگال)میں ایسا ایک واقعہ ہوچکا ہے کہ جس پر افسوس کریں تو مشکل اور نہ کریں تو مشکل۔ہندوستانی مسلمانوں کی مذہبی قیادت نے بھی اس پر کوئی رائے ظاہر نہیں کی ہے۔لیکن میرا خیال ہے کہ اس طرح کے واقعات پر اب لب کشائی ہونی چاہئے۔دنیاوی طاقتوں سے تحفظ کیلئے خوف خدا مومن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
پاکستا ن کے ایک دیہی علاقہ میں ایک جاہل امام‘جشن میلادکی تقریب منانے کے بعد100 لوگوں پر مشتمل ایک مجمع سے بآواز بلند سوال کرتا ہے:تم میں سے کون کون محمد(ﷺ) کا پیروکار ہے؟ اس پر مجمع میں موجود ہرایک نے ہاتھ ہوا میں لہرا دیا۔اب اس نے دوسرا سوال کیا:تم میں سے کون ہے جو محمد(ﷺ)کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتا؟اس سوال پر مجمع نے ہاتھ نہیں اٹھایا لیکن غلطی سے 15سالہ ایک اسٹوڈنٹ نے ہاتھ اٹھادیا۔اس اسٹوڈنٹ نے اس جاہل کا دوسرا سوال صحیح طورپر سنا بھی نہیں تھا۔اس نے یہی سمجھا کہ دوسرے سوال پر بھی ہاتھ اٹھاکر ہی جواب دینا چاہئے لہذا اس نے بچپن کی معصومیت اور لڑکپن کی تیزی کے ساتھ اپنا ہاتھ ہوا میں لہرادیا۔جاہل امام نے اٹھا ہوا یہ ہاتھ دیکھا تو اس نے شور مچانا شروع کردیا کہ اس لڑکے نے ہمارے نبی کی شان میں گستاخی کی ہے۔یہ توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے۔مجمع میں موجود دوسرے جہلاء اس لڑکے کو عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگے۔لڑکا فوراً اٹھا اور گھر پہنچ کر گھانس کاٹنے والی مشین کے نیچے اپنا دایاں ہاتھ رکھا اور مشین کا بٹن دبادیا۔وہ کٹے ہوئے اس ہاتھ کو ایک ٹرے میں رکھ کر امام کے پاس واپس آیا اور اپنا ہاتھ پیش کرتے ہوئے بولا’’میں نے آپ کا سوال صحیح سے نہیں سنا تھا لیکن چونکہ میرے اس ہاتھ سے نبی کی شان میں گستاخی ہوگئی ہے اس لئے میں نے اسے کاٹ دیا۔‘‘جاہلوں نے اس واقعہ کا بھی جشن منایا۔ایک بے ہودہ امام کی جہالت سے ایک ہونہار بچہ ’’اپنے ہی ہاتھوں‘‘ اپنے اس ہاتھ سے محروم ہوگیا جس سے وہ لکھتا تھا۔اب یہ ہاتھ کبھی نہیں جڑ پائے گا۔بی بی سی کی ایک خاتون صحافی نے اس بچہ سے پوچھا کہ آخر کیسے تم نے خود اپنا ہی ہاتھ کاٹ ڈالا؟بچہ نے جو جواب دیا اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر میں خود یہ نہ کرتا تو دوسرے لوگ کردیتے اور میرا جینا حرام ہوجاتا۔اب یہ ہورہا ہے کہ لوگ اس بچہ کی ’’زیارت‘‘ کوآرہے ہیں اوراس کے بائیں ہاتھ کو چوم کرجانے کیا کیا ٹوٹکے کر رہے ہیں۔تاہم وہ جاہل امام گرفتار ہوگیا ہے۔
آئیے اب مالدہ کی خبر لیتے ہیں۔مالدہ سے کوئی 23کلو میٹردور ایک علاقہ کالیا چک ہے۔یہ بنگلہ دیش کی سرحدپرواقع ہے۔یہاں اور اس کے اردگردکے درجنوں گاؤوں میں مسلمانوں کی خاصی آبادی ہے۔لیکن پولس کے ریکارڈ کے مطابق سرحد سے لگے ہوئے کھیتوں میں پوست کی غیر قانونی کاشت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔پوست کو نشہ کے طورپربھی استعمال کیا جاتا ہے۔لہذا پولس اور پوست کے کاشتکاروں کے درمیان یہاں اکثر مناقشہ ہوتا رہتا ہے۔پولس چھاپے مارتی ہے اور پوست کی کاشت قبضہ میں لے لیتی ہے۔اس اعتبار سے یہاں مختلف قسم کے مافیا بھی موجود ہیں اور جرائم میں ملوث افراد بھی اس علاقہ میں آباد ہیں۔3جنوری 2016تک ان افراد کا پورا ریکارڈ یہاں کے تھانہ میں موجود تھا مگر اب نہیں ہے۔ناپسندیدہ عناصر نے سب جلاکر خاک کردیا ہے اور درجنوں ٹن ضبط شدہ پوست کی چوری کرلی ہے۔
میں نے اس موضوع پر لکھنے کا جوکھم اس لئے مول لیا کہ 3جنوری 2016کے بعد مجھے بہت سی محفلوں ‘ مجلسوں اور پروگراموں میں مالدہ میں پیش آنے والے افسوس ناک اور شرمناک واقعہ کے تعلق سے بہت سے سخت اورمشکل سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔مالدہ کے کالیا چک میں ’’ادارہ شرعیہ ‘‘کی جانب سے ایک احتجاجی ریلی کا انتظام کیا گیا تھا۔یہ ریلی اترپردیش کے آل انڈیا ہندو مہاسبھا کے(سابق) رکن ملعون کملیش تیواری کے خلاف تھی جس نے ایک ماہ قبل شان رسول میں ناقابل بیان گستاخی کی تھی۔اس ریلی کے لئے بڑے پیمانے پر تیاریاں کی گئی تھیں۔لہذا اس میں شرکت کے لئے ایک لاکھ سے زائد لوگ آگئے۔ریلی کے منتظمین کو شروع میں ہی اندازہ ہوگیا کہ مظاہرین مشتعل ہورہے ہیں اور یہ کہ وہ ان کے کنٹرول سے باہر جاسکتے ہیں۔انہوں نے کئی بار اعلان کیا کہ لوگ پرامن رہیں لیکن لوگوں کا اشتعال بڑھتا ہی گیا۔اسی اثنا میں بی ایس ایف (بارڈرسیکورٹی فورس)کے جوانوں سے بھری ایک کاربڑی تیز رفتاری کے ساتھ ریلی میں شامل لوگوں کے ایک ہجوم کے اندر گھس گئی۔اس سے توازن بگڑ گیا اور لوگوں میں اشتعال بڑھ گیا۔چند نوجوانوں نے اس کار کوگھیرلیا اور جوانوں کی پٹائی کی۔جوانوں نے فوراً معافی مانگ لی اور انہیں چھوڑ دیا گیا۔لیکن انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابقسینکڑوں مسلم نوجوانوں نے جو کارنامہ انجام دیا اس کا کہیں کوئی ذکر نہیں۔انہوں نے پاس میں ہی موجود تین مندروں کو اپنے حصار میں لے لیا اور ان کی حفاظت کی۔ لیکن تھانہ کے سامنے ایک 67سالہ غیر مسلم کی پوری بلڈنگ کو لوٹ کر برباد کردیاگیا جس میں ایک بنک بھی قائم ہے اور ایک مسلمان کرایہ دار خاندان بھی رہتا ہے۔اس شخص نے ہاتھ جوڑ کر بھیڑ سے کہا کہ میں ہندو ہوں اور میں تمہارے ساتھ ہوں لیکن ہجوم نے ایک نہ سنی۔اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سارے اخبارات میں آچکا ہے۔
یہاں ادارہ شرعیہ سے چند سوالات کرنے ہیں:
1 کملیش تیواری کے خلاف یوپی پولس کارروائی شروع کرچکی تھی اور وہ جیل میں تھا توپھر مزید احتجاجی ریلی کے انعقاد کا کیا جواز تھا؟
2 کملیش تیواری کا تعلق یوپی سے ہے تو پھر مغربی بنگال کے ایک دور درازعلاقہ میں اس کے خلاف اتنی بڑی ریلی کے انعقاد کا کیا جواز تھا؟
3 ادارہ شرعیہ نے اتنے بڑے پیمانے پر تشہیر کی تھی اور لوگوں کو ریلی گاہ میں بلایا تھا۔کیا اسے سرحدی علاقہ کی حساسیت اور اس علاقہ میں موجودجرائم پیشہ اور ناپسندیدہ عناصر کی خباثت کا اندازہ نہیں تھا؟
4 اور آخری سوال یہ ہے کہ ہم عشق رسول میں ہی یہ سب کچھ کرتے ہیں تو کیا اپنے مخالفین اور سب وشتم کرنے والوں اور دوسرے غیر متعلق لوگوں کے ساتھ اللہ کے رسول ﷺ کا بھی یہی طرز عمل تھا؟
سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آخرہم عشق رسول کے تقاضوں کو پورا کئے بغیر کیسے عشق رسول کا دعوی کرتے ہیں۔ابتدائے نبوت کا زمانہ ہے اور ابو جہل اللہ کے رسول ﷺ کو انتہائی سب وشتم کرکے چلاجاتا ہے۔شکار سے واپسی پر آپ کے چچا حضرت حمزہ کو معلوم ہوتا ہے۔حالانکہ وہ ابھی ایمان نہیں لائے ہیں لیکن غیظ وغضب میں آجاتے ہیں اور ابوجہل کی گوشمالی کرکے آپ کو آکر بتاتے ہیں کہ ’’اے میرے بھتیجے کچھ غم نہ کرنا ‘میں نے ابوجہل سے تمھارا بدلہ لے لیا ہے۔‘‘لیکن تاجدار مدینہ ﷺ اس پر جو جواب دیتے ہیں وہ زیر بحث اشو میں پورے اسلامی فلسفہ کا نچوڑ ہے۔آپ بدلہ لینے کی خبر پر خوش نہیں ہوتے۔کیا عشق رسول سے سرشار قوم کو مزید بتانے کی ضرورت ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے کھلے دشمنوں کے ساتھ خود اللہ کے رسول کا رویہ کیا تھا؟پھر جب آل انڈیا ہندو مہاسبھا کے صدر نے مسلمانوں سے معافی مانگ لی تھی اور اس ملعون کو سبھا سے نکال باہر کردیا تھا اور یوپی پولس نے قانونی کارروائی شروع کردی تھی تو اس سلسلہ میں مزید احتجاجی ریلیوں کی اور وہ بھی یوپی کو چھوڑ کر دوسری ریاست میں کیا ضرورت تھی؟پولس اگر قانون کے مطابق کام نہیں کر رہی ہے اور شاتم رسول کے خلاف نرمی برت رہی ہے تو عدالتیں موجود ہیں۔خدا کا شکر ہے کہ عدالتیں آج بھی اس لعنت سے پاک ہیں جو ہمارے سیاستدانوں اور افسروں میں سرایت کر گئی ہے۔
میرا نظریہ تو یہ ہے کہ ہم اس طرح کے معاملات پر خاموش ہر گز نہ بیٹھیں۔اپنا ہر قانونی حق استعمال کریں لیکن دور حاضر کوئی معمول کا دور نہیں ہے۔اس دور میں ہمیں انتہائی احتیاط اور ضبط کی بھی ضرورت ہے۔ہمیں اپنا ہر شہری اور جمہوری حق بڑی دور اندیشی اور مصلحت کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے۔ہم ایسے سخت حالات میں بھی اپنا ایسا کردار اور اخلاق پیش کریں جیسا مالدہ کے ان نوجوانوں نے تین مندروں کی حفاظت کرکے پیش کیا ہے۔ویسا نہیں جیسا دوسرے جھگڑالو نوجوانوں نے ایک معمر ہندوکی بلڈنگ کو آگ کے حوالے کرکے
پیش کیا ہے۔غور کیجئے کہ اسلام وہ ہے جو پہلے نوجوانوں نے پیش کیا یا وہ ہے جو بعد کے نوجوانوں نے پیش کیا؟اسی سوال پر ہمارے عشق رسول کے کھرا اور کھوٹا ہونے کادارومدار ہے۔
اپنا تبصرہ لکھیں