پیروی کیجیے

تحریر الطاف حسین
زید بن حارثہ قبیلہ کلب کے ایک شخص حارثہ بن شراحیل کے بیٹے تھے۔ان کی ماں سعدی بنت ثعلبہ تھیں۔زید بن سعد جب آٹھ سال کے تھے اس وقت انکی والدہ ان کو لے کر ا ن کو میکے گئیں۔وہاں قیس بن حسر کے لوگوں نے ان کے پڑائو پر حملہ کیا۔وہ کچھ لوگوں کو بھی ساتھ لے گئے ان میں زید بھی شامل تھے۔اس کے بعد ان لوگوں نے انہیں عکاظ کے میلے میں لے جا کر انہیں بیچ دیا۔ان کو حکیم بن حزام نے خریدا جو ان کے بھتیجے تھے۔وہ انہیں مکّہ لائے اور غلام کی حیثیت سے اپنی پھوپھو کو دے دیا۔نبی پاک کا نکاح جب حضرت خدیجہ سے ہوا انہوں نے انہیں نبی پاک کی خدمت کے لیے انہیں دے دیا۔اس وقت حضرت ذید کی عمر پندرہ برس تھی۔کچھ عرصہ بعد حضرت ذید کے چچا اور باپکو ان کے بارے میں علم ہوا تو وہ مکّہ آئے تاکہ ان کو اپنے ساتھ لے جا سکیں۔وہ رسولاللہ سے ملے اور کہا آ پ صلعم جو فدیہ لینا چاہیں لے لیں ۔آپ ہمارا بچہ ہمیں دے دیں ۔رسول اللہ نے فرمیا اگر لڑکا آپ کے ساتھ جانا چاہے تو آپ بغیر کسی فدیہ کے لے جا سکتے ہیں۔۔۔۔رسوللہ نے زید بن حارث کو بلایا اور فرمیا ۔۔۔۔کیا تم انہیں پہچانتے ہو ؟
حجرت ذید نے جواب دیا ہاں یہ میرے باپ اور چچا ہیں۔۔۔
حجور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ یہ لوگ تم کو لے جانا چاہتے ہیں۔اگر تم چاہو تو ان کے ساتھ جا سکتے ہو۔۔۔۔حضرت ذید نے جواب دیا میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائوں گا۔یہ بات سن کر ان کے باپ اور چچا غصہ میں آ گئے اور کہنے لگے کہ تم آزادی کو چھوڑ کر غلامی پسند کرتے ہو اور اپنوں کو چھوڑ کر غیروں کے پاس رہنا چاہتے ہو۔۔۔۔۔۔؟
حضرت ذید نے کہا میں نے جو خوبیاں حضرت محمد ۖ میں دیکھی ہیں وہ کسی اور میں نہیں دیکھیں۔اس کے بعد میں کسی کو بھی ان پہ ترجیح نہیں دے سکتا۔۔۔۔یہ واقعہ نبوت سے پہلے کا ہے۔
فرانس کے مشہور فلسفی والٹیر نے کہا تھا کہ کوئی شخص اپنے قریبی لوگوں میں ہیرو نہیں ہوتاکیونکہ قریبی لوگوں کی نظر میں آدمی کی نجی زندگی ہوتی ہیاور نجی زندگی میں کوئی آدمی کامل نہیں ہوتا۔اس لیے قریبی لوگوں کے اندر اس کے لیے ہیرو کے جذبات پیدا نہیں ہوتے۔سورن سنگھ نے لکھا کہ یہ فارمولہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق نہیں آتا۔کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کہ جو شخص جتنا رسواللہ کے قریب تھا۔اتنا ہی وہ آپ کی خوبیوں کا شیدائی تھا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ مکمل طور پر حیات طیبہ کا نمونہ ہے۔قرآن پاک میں لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ وہ اخلاق رسول پاک کی پیروی کریں۔رسول پاک کی حیات مبارکہ کا ہر پہلو آپ کے اخلاق حسنہ کی دلیل ہے۔نبوت سے پہلے کی زندگی ہو یا بعد کی۔زندگی کے ہر دور مں آپ صلعم کے اخلاق نے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔
ایک با ر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ صلہء رحمی یہ نہیں ہے کہ آپ صلہء رحمی کرنے والوں کے ساتھ صلہء رحمی کرو بلکہ صلہء رحمی یہ ہے کہ جو قطع رحم کرے اس کے ساتھ صلہء رحم کرو۔بخاری حدیث

اپنا تبصرہ لکھیں