پکوڑہ سموسہ فروشوں کی خطرناک حرکت

pak media...

شازیہ عندلیب
پاکستان میں اکثر لوگ کھانے پینے کی اشیاء کو فرائی کرنے کے بعد ا خبارات اور رسائل کے صفحات پر رکھ دیتے ہیں تاکہ ان کی چکنائی ان کے صفحات میں جذب ہو جائے۔مگر انہیں یہ نہیں معلوم کہ ان کاغذات میں تیل اورگھی تو جذب ہو جاتا ہے مگر تلی ہوئی چیزوں میں اس کے بدلے میں خطرناک اور جان لیوا کیمیکلز جذب ہو جاتے ہیں۔ایک جدید تحقیق کے مطابق یہ کیمیکلز انسانی جسم میں معدے اورآنتوں کے کینسر جیسے جان لیوا اور مہلک امراض کا باعث بنتے ہیں۔
حالیہ تحقیق کے مطابق محقیقین نے کہا ہے کہ اخبارات کے کاغذات کو چکنائی چوسنے کے لیے بلاٹنگ پیپر کے طور پر استعمال کرنے والے خبردار رہیں۔کیونکہ انکی چھپائی کے دوران استعمال ہونے والی سیاہی میں موجود کیمیکلز انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔اخبارات کو کھانے کی ذائد چکنائی چوسنے کے لیے انہیں استعمال کرنے سے انسانی جسم میں ایسے جراثیم داخل ہو جاتے ہیں جو کہ انسانی زندگی کے لیے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔حوالہ کے لیے اردو فلک ڈاٹ نیٹ کی خبروں میں اس بارے ایک میں خبر ملاحظہ کریں۔
وطن عزیز میں ایک عجیب احمقانہ رجحان چل پڑا ہے۔بعض مرتبہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی ایسی باتیں کر جاتے ہیں کہ انسان پریشان ہو جاتا ہے ان کی سوچ اور سوچوں کی اپروچ پرانسان سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ کیا کسی کوٹ کو کاپی پیسٹ کرنے والا پڑھا لکھا بھی ہے کہ نہیں یا پھر اس نے بلا سوچے سمجھے کسی کے لکھے ہوئے نوٹ کو کاپی پیسٹ کر کے فارورڈ کر دیا ہے۔کسی کی تضحیک کرنے سے پہلے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کہیں ہ اپنا ہی نقصان تو نہیں کررہے۔اب اسی نوٹ کو لے لیں ۔مذکورہ بالا کوٹ جس کسی نے بھی لکھا ہے اس سے نہ صرف اس کے علم دوست نہ ہونے کا پتہ چلتا ہے بلکہ حفظان صحت سے متعلق معلومات سے بھی نا بلد معلوم ہوتا ہے۔یاپھر ایسا لگتا ہے جیسے کسی سموسہ پکوڑہ فروش نے اپنے تئیں اخبارات اور رسائل کے بہتر استعمال کے بارے میں اظہار خیال کرنے کی کوشش کی ہے۔کیونکہ ا س میں سوشل میڈیا کا بھی ذکر ہے۔آجکل کے دور میں سوشل میڈیاسے کون واقف نہیں ۔اس لیے کہ آپ کو موبائیل ہر پڑھے لکھے اور ان پڑھ امیر و غریب کے ہاتھ میں نظر آئے گا۔ہاں اس کے استعمال مختلف ہو سکتے ہیں۔ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں جو اسے ہر وقت فضول باتوں کے لیے یا پھر محض موسیقی سننے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔جبکہ کچھ لوگ اس پر درس تلاوت اور نعتیں بھی سنتے ہیں۔بات پھر وہی آ جاتی ہے اپنی اپنی سوچ اور اپروچ کی۔یہ جرائم پیشہ اور دین داروں دونوں کے ہاں یکساں مقبول ہے۔سوشل میڈیا کو لوگوں میں اچھی اور معلوماتی باتیں پھیلانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔نہ کہ غلط انفارمیشن پھیلانے کے لیے۔جو لوگ اخبار کے صفحات پر تلی ہوئی چیزیں رکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ فوری طور پر اپنا معدہ اورانتڑیاں چیک کرائیں۔تاکہ کسی قسم کی مضر بیماری سے بچ سکیں۔
اب رہ گیا مسلہء اخبارات،کتابوں اور رسائل کا۔ان سے ہمارے ہاں پڑھنے کے علاوہ ہر کام لیا جاتا ہے۔بیشتر لوگ پکوڑوں سموسوں کی چکنائی جذب کرنے کے علاوہ اس میں تندور کی گرما گرروٹیاں لپیٹنے اور پیکنگ کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔مگر انہیں پڑھنے سے حتی الامکان گریز کیا جاتا ہے۔مانا کہ کچھ اخبارات ڈس انفارمیشن پھیلاتے ہیں لیکن سب تو ایسے نہیں۔میڈیا آج کے ترقی یافتہ دور میں معلومات اور خبریں حاصل کرنے کا موثر ذریعہ ہے۔اس سے نفرت کا اظہار در حقیقت ترقی سے اظہار نفرت ہے۔یہ ترقی یافتہ دور کے وسائل ہیں ۔ہمیں انکا مثبت استعمال سیکھنا ہو گا۔ان سے منہ موڑنا اپنی ترقی سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔سوشل میڈیا کو صرف ہنسی مذاق اور ٹائم پاس کرنے کا ذریعہ نہ بنائیں ۔بلکہ اسے سنجیدگی سے اپنی اور دوسروں کی بھلائی کے لیے استعمال کریں۔کتابیں اور اخبارات صرف ردی میں بیچنے اور لفافے بنانے والی قو م کیسے فلاح پا سکتی ہے؟ہمارے ایک لکھاری ضمیر آفاقی نے اپنے کالم میں ایک بہت خوبصورت بات کہی انہوں نے کہا کہ جس قو کا یہ شعور ہو کہ اسکی کتابیں فٹ پاتھوں پر اور جوتے شو کیسوں میں سجے ہوں اس کے نصیب میں بھی جوتے ہی ہوں گے۔مکمل الفاظ یاد نہیں مگر اسکا لب لباب تقریباً یہی تھا۔
جانے یہ کوٹ لکھنے والے کو اخبارات سے کیا پرخاش تھی کہ اس نے یہ سب لکھ ڈالا۔بے شک آجکل بیشتر اخبارات سوشل ازم کا شکار ہیں لیکن ان میں کچھ با ضمیر بھی تو ہیں ۔یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اچھے اور سچے لوگوں کی حوصلہ افزائی اور زرد صحافت کی حوصلہ شکنی کریں ۔تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے معاشرے میں صحتمندانہ رجحانات نہ پنپ سکیں۔مغربی ممالک جنہوں نے سوشل میڈیا کی جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کرایا ہے۔وہ تو آج بھی کتابوں سے محبت کرتے ہیں ناروے جیسے ترقی یافتہ ملک کا بچہ بچہ کتابیں پڑھتا ہے۔اور تو اور نارویجن ولی عہد شہزادی میتا مارت کتابوں سے اس قدر محبت کرتی ہیں کہ انہوں نے ان چھٹیوں میں ذیادہ وقت مطالعہ میں گزارنے کا پروگرام بنایا ہے۔ ناروے کے کتب خانے اور لائیبریریاں آج بھی آباد ہیں ۔مصنفین سالانہ کئی ملین کراؤن کا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔حکومت ان کے لیے کئی ملین کے انعامات اور فنڈز سالانہ دیتی ہے۔حالانکہ ان کے پاس جدید ترین موبائلز اور کمپیوٹرز کی سہولت موجود ہے۔ہر سال بچوں کی کئی کتابیں تصنیف ہوتی ہیں ۔ہمارے ہاں بچوں کے لٹریچر پہ بالکل کام نہیں ہوتا۔اس پر ہم لوگ یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ بچے مغربیت کا شکارہو رہے ہیں جو چند ایک افراد بچوں کے لٹریچر کے لیے کا کر رہے ہیں ہمیں انکا احسان مند ہونا چاہیے کہ کسی کو تو مستقبل کے معماروں کی فکر ہے۔بچوں کو سب قیمتی سرمایہ قرار دیتے ہیں مگر ان پراپنا قیمتی وقت صرف نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں میں سویڈن کے لکھاری اور اسلامی اسکالر عارف کسانہ کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں جنہوں نے اس دور ابتلاء میں بچوں کی اسلامی کتاب ” بچوں کی اسلامی کہانیاں “لکھ کر بہت بڑا کام سر انجام دیا ہے۔اس موضوع پر ایک علیحدہ تحریر کی ضرورت ہے۔ہمارے پاس دنیاکی قیمتی ترین کتاب قرآن پاک ہے ۔مگر وہ بھی صرف پڑھنے اور سجانے کے لیے۔عمل کرنے کے لیے نہیں۔ہماری قوم اس وقت تارک قرآن اورتارک کتاب ہے۔جس نے قرآن کی تعلیمات سے منہ موڑا گویا اس نے اپنی اور قوم کی ترقی سے منہ موڑا۔قرن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ یہ قرآن بڑی ہدائیت کی کتاب اور بھٹکانے والی کتاب ہے۔یعنی جو ہدائیت چاہتا ہے اسکے لیے ہدائیت ہے ورنہ جس نے ہر بات میں نقطہ چینی ہی کرنی ہے تو پھر اسے قرآن جیسی قیمتی کتاب ہدائیت بھی ہدائیت نہیں دے سکتی ہے ، نہ سوشل میڈیا اور نہ ہی کتابیں۔
اس موقعہ پر علامہ اقبال کا کئی بار کا سنا ہوا شعر بے اختیار یاد آ رہا ہے کہ
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

اپنا تبصرہ لکھیں