پشاور کی دہشت گردی

mussaratناروے کی ڈائری
کالم نگار مسرت افتخار حسین
ناروے میں مقیم پاکستانی پس منظر رکھنے والے تمام افراد اپنے ہم وطنوں کے ساتھ دکھ کی اس گھڑی میں اسی طرح شریک ہیں جس طرح دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والا کوئی بھی پاکستانی ہو سکتا ہے۔سانحہء پشاور اور آرمی اسکول کے بچوں اور اساتذہ کی شہادت نے بیرون ملک مقیم خصوصاً ہر پاکستانی اور عموماًپوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ناروے میں مقیم پاکستانی غم سے اس طرح نڈھال ہیں جس طرح
پشاور میں بچوںکے والدین پر قیامت گزر رہی ہے۔اوسلو میں مختلف مقامات پر اجلاس ہو رہے ہیں اور شمعیں روشن کی جا رہی ہیں۔وہ قیامت کا ہی دن تھا جب ٹی وی پر دہشت گردوں نے آرمی اسکول میںبچوں پر بر بریت کا آغاز ہوا۔حالات کی سنگینی کا اندازہ رد عمل سے ظاہر تو ہو رہا تھا جبکہ وزیر اعظم نواز شریف جنرل راحیل اور عمران خان سمیت تمام اعلیٰ حکام پشاور پہنچنا شروع ہو گئے۔مگر بے رحم دہشت گرد ایک سو اکتالیس بچوں کی زندگی کے چراغ گل کر دیں گے ۔یہ کسی کے وہم و گمان میںبھی نہ تھا۔کہ اسکول کے بچوںپر اسکول میں اس طرح سے ظلم کیا جائے گا۔کہ کربلاء کی یاد تازہ ہو جائے گی۔معصوم بچوں کی چیخیں خود کو بچانے کی جدو جہد آڈیٹوریم ہال کی لہو میں ڈوبی کرسیاں بکھرے کاغذ لہو میں ڈوبے جوتے چیخ چیخ کر کہ رہے تھے فریاد کر رہے تھے کہ میرے بچوں پر کس طرح ظالموں نے گولیاں برسائیں۔چن چن کر شہید کیا میرے معصوم بچوں کو ۔وہ مدد کے لیے پکارتے رہے وہ جان بچانے کی جدو جہد کرتے رہے۔مگر ہال میں موجود کوئی بھی بچہ ان کی بر بریت سے محفوظ نہ رہ سکا۔جب بچوں کی ٹیچر نے آگے بھاگنے کو کہا اور وہ دروازے تک پہنچے تو بچوں پر دستی بم پھینکے گئے۔آڈیٹوریم کے دروازے دیواریں چھت اور دیواریںدہشت گردوں کی خون ریزی کا ثبوت ہیں۔وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ کس طرح دہشت گردوں نے ہمارے بچوں پر بر بریت کی مثال قائم کر دی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں بچوں پر اس طرح کے مظالم کی تاریخ نہیں ملے گی۔ہٹلر نے بھی بڑوں کو ختم کیا۔
2011 سن میں ناروے میں آندرس بیورک نے نارویجنوں کی جان لی جن میں سے 69 نو جوان لڑکے لڑکیاں تھیں۔اور یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ناروے کا بڑا سانحہ تھابرائیویک نے بھی نو جوانوں کو ایک ایک کر کے گولیاں ماری تھیں۔چونکہ یہ اجتماع ایک جزیرے پہ تھا جہاں انہوں ے بچنے کے لیے دریا میں چھلانگیںلگا دی تھیں۔برائیویک نے وہاں بھی ان کا پیچھاکیا۔اور پانی میں گولیاں چلاتا رہا۔پشاور میں دہشت گردوں کی بر بریت نے ظلم و بر بریت کے گذشتہ تمام تاریکی واقعات و سانحات کو مات دے دی۔یقین نہیں آتا کہ کوئی اتنا سفاک ہو سکتا ہے کہ بڑوں سے مقابلے کے بجائے نہتے بچوں کو نشانہ بنائے۔اور وہ بھی جو مسلمان ہوں۔اللہ اور اللہ کے رسول کو ماننے والے۔یقین نہیں آتا محمد ۖ
کو ماننے والے یہ سب کر گزرے۔دہشت گردوں کے حملہ کرنے کا یہ جواز ملا ہے کہ چونکہ فوجی ان کے بچوں اور عورتوں کو ہلاک کر رہے ہیں ۔اس لیے بدلے میں انہوں نے فوجیوں کے بچوں کو نشانہ بنایا ہے۔تاکہ پاکستان کے فوجیوں کو احساس ہو ۔ہم کہاں پر غلط ہیں۔دونوں طرف کے لوگ مسلمان ہیں ایک خدا اور اس کے رسول کو ماننے والے ہیں۔ان میں سے کون صحیح اور کون غلط ہے؟خدا کے لیے آپس میں لڑنے کے بجائے ایک دوسرے کی جانیں لینے کے بجائے قاتل وجہ تلاش کریں۔اور اس وجہ کو ختم کریں ۔انسانوں کو کھلونا سمجھ کر مت کھیلیں۔
کاش دہشت گرد ان مائوں کی آہ و بکاہ سن سکتے ۔کاش دہشت گرد ان گھروں کے اندھیروں کو دیکھ پاتے جن کے چراغ گل ہو گئے ہیں۔کاش دہشت گرد اپنے ہی ظلم و بر بریت کو دیکھنے کے لیے زندہ رہ جاتے۔تاکہ وہ دنیا کو بتا سکتے کہ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ اس کے نتائج و اثرات کیسے ہوتے ہیں۔

2 تبصرے ”پشاور کی دہشت گردی

  1. .Dukh ki is ghari me hum sab un k sath hain.ALLAH TALA une sabar den.AmeenBohat hi dardnak waqia ha.is ki jitni bi muzamat ki jae kam ha

  2. Bohat hi dardnak waqia ha is ki jitni bi muzamat ki jae kam ha.
    Dukh ki is ghari me hum sab un k sath hain.ALLAH TALA une sabar den.
    Ameen.

اپنا تبصرہ لکھیں