پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے

سہیل انجم
رویش کمار اور وشو دیپک متعصبانہ میڈیا رپورٹنگ کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں امید کی کرن ہیں۔ وشو دیپک نے ہر خبر کو نریندر مودی کے نقطہ نظر سے پیش کرنے اور جے این یو کے طلبہ کو ملک دشمن ثابت کرنے کے لیے ایک جعلی ویڈیو دکھانے کے خلاف بطور احتجاج زی نیوز سے استعفیٰ دے دیا تو رویش کمار نے اپنے ایک پروگرام کے دوران ٹیلی ویژن کی اسکرین کو سیاہ کرکے اپنی برادری میں موجود تعصب کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ ایسا انوکھا احتجاج اس سے قبل کبھی نہیں ہوا، اور وہ بھی اپنی ہی برادری کے خلاف ۔ جب الیکٹرانک میڈیا کا وجود نہیں تھا اور صرف پرنٹ میڈیا کا راج تھا تو اخبار کے صفحے کو یا سرخیوں کو سیاہ کرکے احتجاج درج کرایا جاتا تھا۔ لیکن ہندوستانی میڈیا کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ ٹی وی اسکرین کالی کر دی گئی۔ ناظرین یہ نہ سمجھ لیں کہ ان کا ٹی وی خراب ہو گیا ہے اس لیے اس کی وضاحت بھی کر دی گئی۔ رویش نے دو ٹوک لفظوں میں اور جرا ¿ت مندانہ انداز میں یہ بھی نشاندہی کی کہ آج کے الیکٹرانک میڈیا کا یہی چہرہ ہے۔ ان کی آواز بلا شبہ لاکھوں ناظرین کے دل کی آواز تھی۔ رویش الیکٹرانک میڈیا میں آج ہر انصاف پسند شخص کے ترجمان بن گئے ہیں۔ جے این یو معاملے میں جس طرح الیکٹرانک میڈیا نے متعصبانہ رپورٹنگ کی وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ این ڈی ٹی وی کو چھوڑ کر شائد ہی کوئی دوسرا چینل ہو جس نے خود کو اس غلاظت میں گرانے سے بچایا ہو۔ ابھی تک صرف رویش کمار ہی جرا ¿تمندی کا مظاہرہ کر رہے تھے لیکن وشو دیپک کے قدم نے یہ بتا دیا کہ میڈیا میں اب بھی ایسے انصاف پسند افراد ہیں جو بطور احتجاج اپنی ملازمت پر لات بھی مار سکتے ہیں۔ میں اکثر و بیشتر یہ بات کہتا رہا ہوں کہ اگر ہر نیوز چینل پر صرف ایک رویش کمار پیدا ہو جائے تو آج کے الیکٹرانک میڈیا کا چہرہ بدل جائے۔ وشو دیپک نے اس چپرے میں اضافہ کیا ہے۔ ان کا قدم اگر چہ قابل ستائش ہے لیکن اس سے بھی اچھا یہ ہوگا کہ میڈیا ہاوسز میں جو ایماندار اور دیانتدار صحافی ہیں وہ یہ لڑائی اندر ہی لڑیں۔ زی ٹی وی ایک بڑا ادارہ ہے اور حکومت اور آر ایس ایس سے اس کی قربت ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس لیے اس کے اندر صدائے احتجاج بلند کرنا آسان نہیں ہے۔ شائد اسی لیے وشو دیپک نے انتہائی قدم اٹھا لیا۔ لیکن دوسرے نیوز چینلوں کے اندر جو دیانتدار صحافی ہیں ان کو اب یہ لڑائی اندر ہی لڑنی ہوگی۔ اگر یہ لڑائی نہیں لڑی گئی تو ہندوستانی میڈیا کا جو وقار ہے وہ ملیا میٹ ہو جائے گا اور پھر کوئی بھی شخص اس پر اعتماد نہیں کرے گا۔
گزشتہ دس پندرہ دنوں کے اندر الیکٹرانک میڈیا کا جو چہرہ دیکھنے کو ملا ہے وہ خوفزدہ کرنے والا ہے۔ آج میڈیا پر بھی ان نام نہاد قوم پرستوں اور دیش بھکتوں کی فوج حاوی ہو گئی ہے جو خو دکو صحیح اور دوسروں کو غلط مانتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مخصوص معاملات میں اور بالخصوص ان معاملات میں جن میں سنگھ پریوار بھی کود جائے، صحافت کے تمام اصولوں کو پیروں تلے روند دیا جاتا ہے اور وہی سب کچھ کیا جاتا ہے جو سنگھ پریوار چاہتا ہے۔ جب سے مرکز میں نریندر مودی کی قیادت اور بی جے پی کی سربراہی میں این ڈی اے کی حکومت بنی ہے، جو در حقیقت نام کی این ڈی اے حکومت ہے اصلاً آر ایس ایس کی حکومت ہے، الیکٹرانک میڈیا کا چہرہ ایک دم بدل گیا ہے۔ گوکہ نریندر مودی اسے کوئی بھاو ¿ نہیں دیتے اور اس سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے، اس کے باوجود صحافیوں کی اکثریت مودی بھکت ہو گئی ہے۔ پرنٹ میڈیا پھر بھی غنیمت ہے۔ وہ اتنا مودی بھکت نہیں ہوا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں این ڈی ٹی وی واحد چینل ہے جو سب سے زیادہ اصول پسند اور دیانتدار ہے۔ پرنٹ میڈیا میں انڈین ایکسپریس نے اس روایت کو برقرار رکھا ہے۔ اگر چہ کسی زمانے میں اسے بی جے پی نواز مانا جاتا تھا خاص طور پر ارون شوری کے دور ادارت میں، لیکن جب سے شیکھر گپتا اس کے ایڈیٹر ہوئے ہیں اس کا رویہ بدلا ہے اور اس نے اخباروں کی بھیڑ میں اپنا ایک ممتاز مقام بنایا ہے۔ اسی طرح دی ہندو نے بھی صحافتی دیانتداری کی مثال قائم کی ہے۔ حالانکہ ہندو ہی میں ایک انتہائی متعصب صحافی پروین سوامی نے ایک عرصے تک مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہندو کی دیانتداری متاثر نہیں ہوئی۔ اب وہی پروین سوامی انڈین ایکسپریس میں آگئے ہیں اور داعش کے حوالے سے ان کی کئی رپورٹیں شائع ہوئی ہیں جن میں انٹلی جنس کے ذرائع کے حوالے سے مسلمانوں کو بدنام کرنے کا پہلو نکلتا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اس نے اب بھی اپنا وقار برقرار رکھا ہے۔ انڈین ایکسپریس کی دیانتداری کی تازہ مثال لاتور ضلع کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر یونس شیخ کے بارے میں اس کی رپورٹنگ ہے۔ مسلسل دو روز تک اس نے ان کے بارے میں رپورٹ شائع کی اور ان کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کو بے نقاب کیا۔ اس نے مقامی پولیس کی نااہلی کو بھی بے نقاب کیا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ اگر پولیس نے بروقت پہنچ کر ان کی مدد کی ہوتی تو نہ تو ان کو زدو کوب کیا گیا ہوتا، نہ ان سے بھگوا جھنڈا لہروایا گیا ہوتا، نہ ان سے جے بھوانی اور جے شیواجی کے نعرے لگوائے گئے ہوتے اور نہ ہی ان کی داڑھی پر استرا پھیرنے کی کوشش کی گئی ہوتی اور نہ ہی انھیں اسپتال میں بھرتی ہونا پڑا ہوتا۔ الیکٹرانک میڈیا کے نزدیک شائد یہ کوئی خبر نہیں تھی۔ اسی لیے اس کو دکھانے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ یہ محض ایک مثال ہے ورنہ ایسی خبریں تو روزانہ آتی ہیں جن میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی کا پہلو نکلتا ہے اور الیکٹرانک میڈیا اسے دکھانے سے پہلوتہی کر جاتا ہے۔
جے این یو تنازعہ میں الیکٹرانک میڈیا نے جس بددیانتی اور کینہ توزی کا مظاہرہ کیا اس کی مثال چند رپورٹوں کے نمونو ںمیں دیکھی جا سکتی ہے۔ زی نیوز کے ڈی این اے پروگرام میں سدھیر چودھری کی زبان ملاحظہ ہو: ”بھارت کا اپمان کسی قیمت پر سہا نہیں جا سکتا اور دیش دروہیوں کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جا سکتا“۔ زی نیوز ہی کے تال ٹھونک پروگرام میں روہت سردانہ کی زبان دیکھیں: ”(جے این یو کے طلبہ کو مخاطب کرکے) میں اس دیش کا ٹیکس دہندہ ہوں۔ آپ میری جیب سے پیسے لے کر وہاں سبسڈی لے کر رہتے ہیں۔ میں آپ کی فیس کے پیسے اس لیے دیتا ہوں تاکہ آپ پڑھیں اور دیش کو اچھی سوچ دینے والے اکیڈمیشین بن کے نکلیں۔ کیو ںان لاکھوں کروڑو ںٹیکس دہندگان کو آپ چونا لگا رہے ہیں“۔ ٹائمس ناو ¿ کے پروگرام میں ارنب گوسوامی کی زبان ملاحظہ ہو: ”(عمر خالد کو خطاب کرتے ہوئے) تم اس ملک میں ماو ¿ نواز دہشت گردوں سے زیادہ خطرناک ہو۔ اس ملک میں لیفٹ موومنٹ کو تباہ کرنے کے لیے تمھاری فنڈنگ کون کرتا ہے“۔ انڈیا نیوز میں دیپک چورسیا کی زبان: ”(کنہیا کمار کو بھارت ماتا کی جے بولنے کی ہدایت دیتے ہوئے) آپ بھارت ماتا کی جے بولیے، دقت کیا ہے؟ میں پترکار بعد میں ہوں دیش کا ناگرک اور دیش بھکت پہلے ہوں۔ میں نقلی دیش بھکت نہیں ہوں۔ ان کے خلاف قانونی کارروائی بی جے پی کی طرف سے ہونی چاہیے“۔ زی نیوز پر خالد کی کھوج کے عنوان سے ایک پروگرام میں عمر خالد کے والد ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ”یہ کیسے باپ ہیں جو دھرم کو ہتھیار بنا کر دیش دروہ کے آروپی بیٹے کی طرفداری کر رہے ہیں“۔ یہ محض چند مہذب نمونے ہیں ورنہ اس سے بھی بیہودہ زبان کا استعمال ان دنوں الیکٹرانک میڈیا میں کیا گیا۔ اللہ ان صحافیوں کو عقل سلیم عطا کرے۔
اپنا تبصرہ لکھیں