پاکستانی پناہ گزین اور رکن اسمبلی کی اخلاق سوز حرکتیں

shazia logo 22شازیہ عندلیب
آوازیں کسنا،نعرے لگانا طنز کرنا اور چھیڑ خانی کرنا تو گویا پاکستانیوں کا قومی مزاج ہی بنتا جا رہا ہے۔پچھلے دنوں جرمنی کے شہر کولون میں دو پاکستانیوں کو جرمن عورتوں کو چھیڑنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ۔یہ خبر کس قدر افسوسناک تھی ایک مسلمان اور پاکستانی کی حیثیت سے یہ پڑھ کر سر ندامت سے جھک گیا۔ایسی خبر پوری پاکستانی قوم اور خاص طور سے بیرون ملک بسنے واالی پاکستانی کمیونٹی کے لیے باعث شرم ہے۔وطن عزیز میں تو جو اخلاق سوز حرکتیں کرتے رہتے ہیں انکا اثر اسی معاشرے پر پڑتا ہے وہ اپنی ہی عورتوں کی جس طرح سے تذلیل کرتے ہیں ۔وہ اسی کیچڑ میں خود ہی لت پت ہوتے رہتے ہیں لیکن کسی دوسرے ملک میں جا کر ایسی گھٹیا اور نیچ حرکتیں کرنا کس قدر معیوب بات ہے۔اس سے باقی پاکستانی کمیونٹی کا امیج کس قدر خراب ہوتا ہے۔جرمنی اور بیشتر یورپین ممالک میں پاکستانی روزگار حاصل کرنے کے لیے نقل مکانی کرتے ہیں۔ان میں سے اکثریت کا تعلق دیہی آبادی اور چھوٹے شہروں کے ان پڑھ اور کم پڑھے لکھے طبقے سے ہوتا ہے۔گو کہ اب کافی لوگ تعلیم یافتہ بھی ہیں۔کئی لوگ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں جو کہ سب سے مہذب طبقہ ہوتا ہے ۔یہ ہو نہار لوگ بلا شبہ قوم کے لیے باعث فخر ہوتے ہیں۔دوسری قسم کے لوگ ملازمت حاصل کر کے یا سرکاری ٹرانسفر یا کورسز کے سلسلے میں بیرون ملک کچھ عرصہ کے لیے مقیم ہوتے ہیں۔یہ لوگ بھی مہذب ہوتے ہیں۔اس کے بعد کچھ افراد شادی کے ذریعے بیرون ملک جاتے ہیں۔یہ لوگ بھی کردار کے لحاظ سے ملے جلے ہوتے ہیں کیونکہ بیشتر کا مقصد بیرون ملک سیٹ ہونا ہی ہوتا ہے۔اس کے بعد آتا ہے نمبر سیاسی پناہ گزینوں کا یہ افراد عام طور سے جنگی علاقوں سے اقوام متحدہ سے معاہدے کے نتیجے میں بیرون ملک منتقل کیے جاتے ہیں۔یہ لوگ عام طور سے عارضی طور پر بیرون ملک رہتے ہیں۔ہنگامی حالات ختم ہونے کے بعد انہیں عام طور سے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ان حالات سے نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ایجنٹ حضرات اقوام متحدہ کے کوٹے میں ایسے لوگوں کو شامل کر کے یا دوسرے نا جائز ذرائع سے مختلف ممالک میں بھیج دیتے ہیں۔یہ لوگ ویزے کی مد میں بھاری رقوم دے کر بیرون ملک جاتے ہیں ۔ان میں عام طور سے جرائم پیشہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں یہ جرمنی میں جو عورتوں سے چھیڑ خانی کا واقعہ ہوا ہے ان پاکستان پناہ گزینوں کا تعلق اسی قبیل سے ہے۔ایسے افراد کی تربیت جس ماحول میں ہوئی ہوتی ہے وہاں عموماً خواتین پر آوازے کسنا اور بد اخلاقی کرنا عام بات ہوتی ہے۔یہ لوگ ایسے ماحول سے نکل کر جب باہر جاتے ہیں تو اپنا گندہ کلچر بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کی مثال بالکل اس مہمان جیسی ہے جو کسی کے گھر اس لیے ٹھہرے کہ وہاں اپنا روزگار تلاش کر سکے اور پھر اسی میزبان کے گھر کی عورتوں کے ساتھ بد اخلاقی

CityGuideImage.....1کرے۔پھر دیکھیں کہ وہ میزبان اس مہمان کا کیا حشر کرتا ہے۔
ابھی اس افسوسناک واقعہ کی خبر کا دکھ کم نہیں ہوا تھا کہ ایک اور خبر نے گویا جلتی پہ تیل کا کام کیا۔یہ تھا ایک رکن اسمبلی کا ایک خاتون رکن اسمبلی پرآواز کسنا۔خواجہ آصف نے شیریں مزاری کو ٹرالی کہہ کر اور ایک اور فرد نے آنٹی کہ کر بے عزتی کی۔ان لوگوں نے ایسی اوچھی اور بازاری حرکات کر کے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستانی قوم کا پورا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔اگر کسی سے اخلاق باختہ پاکستانی قوم کے بارے میں پوچھا جائے تو اسکے جواب میں کہیں گے کہ دوسرے ممالک میں ہم سے بھی برے لوگ اور واقعات ہوتے ہیں۔چلیں جی کوئی مسلہء ہی نہیں۔یہاں کتنی آسانی سے لوگ اپنا مقابلہ غیر مسلموں کے ساتھ کر دیتے ہیں۔اس وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارادین ہمیں بلند اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اور اس شخص پر لعنت بھیجتا ہے جس شخص کے ہاتھ اور زبان سے لوگ محفوظ نہ ہوں۔ہم لوگ اپنا نام کن لوگوں میں لکھوا رہے ہیں؟
سب پاکستانی ایسے نہیں لیکن ایسے واقعات انکا مقامی امیج ضرور خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔جہاں جہاں ایسے واقعات ہوتے ہیں وہاں کے سرکردہ پاکستانیوں کو نہ صرف ایسے بد اخلاق لوگوں کی مذمت کرنی چاہیے بلکہ ان کی نشاندہی بھی کرنی چاہیے۔تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت سوچ سمجھ کر کرے۔اس سلسلے میں میڈیا کو بھی استعمال کرنا چاہیے۔یہ بد اخلاقی خواہ عملاً ہو تحریری طور پر ہو یا کسی بھی کسی قسم کے میڈیا یا چینل کو استعمال کر کے کی جائے اس کا سد باب ،نشاندہی اور علاج ہونا چاہیے تاکہ کم از کم پاکستان کے اندر نہیں تو پاکستان سے باہر تو پاکستانی امن اور سکون سے رہ سکیں۔اس لیے کہ پاکستانی معاشرے کے زوال پذیر اخلاق کو بچانا دن بدن نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔اس کے لیے یہ حدیث ہی کافی ہے
کہ جب حکومت نا اہل لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جائے تو پھر لوگ قیامت کا انتظار کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں