پانی اور چٹان

….’آخری قسط…

اگلی مرتبہ ملاحظہ کریں ہر جمعرات سے اتوارتک نجمہ محمود کی کتاب جنگل کی آواز سے نیا قسط وار

افسانہ ۔۔تحفہ۔۔۔

انٹر نیٹ پر پہلی بار
دوبئی کی ادبی شخصیت اعجاز شاہین کا ارسال کردہ ناول جنگل کی آواز خاص طور سے اردو فلک کے با ذوق قارئین کے لیے

شرم ۔۔۔۔۔؟ شرم آنی چاہیے غلط کام کرتے وقت۔ سمجھے آپ۔۔۔۔ سمجھ گئے ہوں گے مثلاً فلمی ایکٹرسوں کے کیلنڈر۔۔۔۔ اور ہاں آپ خود کو مسلمان کہتے ہیں نا۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’ ہاں ہوں تو مسلمان۔۔۔۔‘‘
’’ آپ کے خیال میں مسلمان مرد اپنی بیوی کو طلاق کس صورت میں دے سکتا ہے‘‘؟
’’ طلاق۔۔۔۔؟ وہ بھونچکّاسا ہوگیا قطعی غیر متوقع سوال تھا۔
’’ ہاں طلاق۔۔۔‘‘
’’جب اولاد نہ ہو یا جب بوڑھی ہونے لگے یا بیمار رہتی ہو۔۔۔۔۔۔۔ کلیم نے جیسے رٹا ہوا سبق دوہرایا۔

جو دیکھا وہ سوچتے ہیں تو لیجیے یہ ترجمہ والا قرآن شریف لے جایئے اور اسے پڑھیے۔
کلیم نے قرآن شریف اور ’’ Doll’s House‘‘ شاہینہ سے لیے اور کمرے سے باہر نکل گیا اس کے انداز میں پہلے کی بہ نسبت خوداعتمادی تھی یہ اچھی علامت تھی ۔۔۔۔۔ رات کے تنہا، تا ریک، اداس، سحر خیز لمحے دھیرے دھیرے سرکتے جارہے تھے اور وہ جاگ رہی تھی اور اس کا پوراوجود پگھل رہا تھا۔ عجیب سی روحانی تشنگی۔۔۔۔۔۔ کسی ایسی بے نام موہوم ہستی کا تصّور جوپوری طرح اس سے مخلص ہو، اس کی روح کی اداسیوں کا مداوا کر سکے، اس کے لیے مضبوط سہارا بن سکے۔ جس کا ذہن روشن ہو، صفائے قلب سے جو مامور ہو، سچا علم جس نے حاصل کیا ہو۔۔۔۔۔۔ کہاں ہے وہ۔۔۔۔۔۔ امّی ابّو کب تک یہاں بیٹھے رہیں گے۔۔۔۔۔۔اوہ!۔۔۔۔ اسے ایک گیت کا یہ مصرع یاد آیا۔
’’ اس جہاں میں اکیلے کدِھر جائیں گے‘‘
کہاں ہے وہ ہستی۔۔۔۔۔کیا وہ جس کا ذکر ابّو کررہے ہیں۔۔۔۔ نہ معلوم کیسا ہو وہ انجان شخص۔۔۔ تو کیا کلیم۔۔۔۔۔؟ اوہ نہیں وہ تو ابھی طفلِ مکتب۔۔۔۔ہے۔ویسے اندازہ یہ ہے کہ اس کی تعلیم و تربیت کے باوجود روایتی جہالت جو اس کے خمیر میں داخل ہوچکی ہے اس کا دور ہونا کارے دارد۔ اس پر ’’مولی صاحب‘‘ کااثر بہت گہرا ہے جسے کھرچنا آسان نہ ہوگا۔ کیونکہ شادی کے بعد لڑکی اپناوجود کھوکر جائداد، مال غنیمت اور فقط چیزمیں تبدیل ہوجاتی ہے۔ تب کی کون دیکھ کر آیا ہے۔۔۔۔ تو۔۔۔ تو۔۔۔ اوہ۔۔۔ اور آسمان پر تھکا ہوا زرد چاند اداس روشنی بکھیررہا تھا۔ اس نے زیر لب کہا۔ Art thou pale for weariness(کیا تم تھکان سے زرد ہو۔)
تو کیا یہ جو اتنی بہت سی شادیاں آئے دن ہوتی ہیں وہ کیا صحیح قسم کی رفاقت ہوتی ہے؟ کیا میں ہمیشہ تنہا رہوں گی کیامیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مندی اپنے ساتھ لاتی ہے جس کا لطف صرف وہی جان سکتا ہے جو صبح اٹھتا ہو۔۔۔۔ ٹھیک سے سو نہ سکنے کے باوجود شاہینہ علی الصبح اٹھ گئی۔۔۔۔۔ دھندلکے ہر طرف موجزن تھے وہ صحن میں نکلی ۔چھت پر جانے والے زینے کے پاس بنے سرخ پتھر کے تخت پر اس نے فجر کی نماز ادا کی۔۔۔۔ اک سکون کا احساس ہوا۔۔۔۔۔ وجود میں اک الُوہی روشنی ۔۔۔۔۔ اس کے بعد گہری سانسیں لیں کہ یوں کوئی خیال دماغ میں آتا ہی نہیں اور وجود مجتمع ہوتا محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اور بیکراں سکون کا احساس ۔ ابھی پو نہیں پھٹی تھی۔۔۔۔۔پکّے صحن کو پار کرتی وہ ذرا نشیب میں واقع کچّے صحن کی طرف بڑھی جو خاصا وسیع تھا جس میں پھلوں اور پھولوں کے درخت تھے۔۔۔۔ اورپھرا س کا پسندیدہ کنج۔۔۔۔۔گلاب اور بیلے کی کیاریاں ۔ بیلے کی بھینی بھینی، بے خود کرنے والی مہک کو خود میں اتارا۔ گلاب کا ایک پھول توڑا اسکی نرمی کو محسوس کیا۔ گہری گہری سانسیں لے کر تازی ہوا کو اپنی رگوں میں سرایت کیا۔ ایک لطیف مسکراہٹ اس کے لبوں پر آئی۔۔۔۔ اور پورا وجود ایک عارفانہ جذبے سے سرشار ہوگیا۔۔۔۔
اور ۔۔۔۔۔۔۔صبح کو خوش آمدید کہتی ہوئی چڑیوں کا گیت فضامیں بکھررہا تھا۔ پوَ پھٹ چکی تھی۔۔۔۔دور مشرق میں سورج کی پہلی کرن نمودار ہورہی تھی۔!
کاش میں تا عمر تنہا رہ سکتی۔ اس نے انتہائی شدت سے سوچا۔ تنہائی کی برکتیں لامحدود۔ ایک میں اَنیک ’’ ہم یکے باشند ہم شش صد ہزار‘‘ وہ ساری عمر تنہا ہی رہے گی۔ اس نے فیصلہ کیا۔ اشوک کے باوقار درختو ! گواہ رہنا۔
وہ اپنے کمرے میں واپس آگئی۔۔۔۔ اس کی نظر دیوار پر لگی پینٹنگ پر گئی۔۔۔۔ تنہاچٹان اور پاس ہی لہریں مارتا پانی اور اس پانی پر بہتی کشتی۔!
کوئل اپنا نغمہ فضا میں بکھیر رہی تھی!۔

اپنا تبصرہ لکھیں