ورکنگ ویمن کو درپیش چیلنجز

٭کرن ناز،کراچی

صحافت ، وکالت ، تدریس ، طب ، بزنس ، مارکیٹنگ ، شو بز سمیت کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں آج کی عورت مردوں کے شانہ بشانہ اپنا کردار انتہائی کامیابی سے ادا نہ کررہی ہو ۔ ایک صدی قبل مغربی ممالک میں بھی خواتین کا نوکری کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا تاہم اس زمانے میں معاشی مجبوریوں کے زیر اثر شروع ہونے والا سفر آج خواتین کی کرئیر فالوونگ تک آگیا ہے ۔ عالمی معاشی بحران نے تیسری دنیا کی عورت کو بھی گھر سے نکلنے پر مجبور کردیا ہے ۔ پاکستان میں محنت کش خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کافی کم ہے جو اندازاٌ پوری آبادی کا بائیس فیصد ہے جبکہ زراعت سے منسلک خواتین کو اعدادو شمار میں عموما نظر انداز ہی کردیا جاتا ہے ۔ جس طرح علم حاصل کرنا ہر عورت کا حق ہے ، اسی طرح کرئیر بنانا بھی ہر عورت کا حق ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی معاشرے میں ورکنگ ویمن کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں معاشرے کی پسماندہ سوچ ، گھریلو مشکلات ، صنفی امتیاز ، ٹرانسپورٹ کے مسائل اور جنسی ہراسانی سرفہرست ہیں ۔ہمارے معاشرے میں ملازمت پیشہ خواتین کو اکثر شوہر اور سسرال کی جانب سے عدم تعاون کی وجہ سے اپنے کیرئیر کو خیرباد کہنا پڑ جاتا ہے ۔ پاکستانی خاندانوں کی اکثریت ابھی اتنی باشعور نہیں ہوئی کہ وہ عورتوں کی کیرئیر فالوونگ کو ان کا حق سمجھ کر انہیں گھریلو معاملات اور ذمہ داریوں میں آسانیاں اور مدد فراہم کرے ۔ایک خاتون جو آفس میں اپنے شوہر کی طرح نائن ٹو فائیو کام کرتی ہے گھر آکر شوہر تو آرام کرتا ہے لیکن بیوی رات دیر تک گھر اور بچوں کے کام نمٹاتی ہے اور دوگنی ذہنی و جسمانی تھکن کا شکار ہوجاتی ہے ۔ دن کے اوقات میں بچوں کو رکھنے کا معاملہ بھی خاصہ تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ عموما دیکھا گیا ہے کہ جوائنٹ فیملی سسٹم کے باوجود بھی سسرال والے بمشکل ہی دن کے اوقات میں بچوں کو رکھنے کے لئے تیار ہوتے ہیں اورزیادہ تر میکے والے ہی کام آتے ہیں ۔ ایسی صورتحال میں حکومت اور این جی اوز کی جانب سے مناسب ڈے کئیر سینٹرز کا قیام ملازمت پیشہ خواتین کی مشکلات میں کسی حد تک کمی لانے کا سبب بن سکتا ہے ۔دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کو صنفی امتیاز کا بھی سامنا ہے ۔مشاہدے میں آیا ہے کہ ایک ہی پوسٹ اور ایک جیسے فرائض منصبی کے باوجود خواتین کی تنخواہ میل ورکرز سے کم رکھی جاتی ہے ۔شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہمارے ہاں یہ تصور ہے کہ گھر مرد ہی چلاتا ہے ۔ معاشرے کی پسماندہ اور متعاصبانہ سوچ آج تک یہ بات تسلیم ہی نہیں کرسکی کہ عورت بھی کفالت کی بھاری ذمہ داری ادا کرسکتی ہے ۔ پاکستانی معاشرے کو اب یہ حقیقت تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ تمام خواتین محض شوق یا ذاتی آسائشیں پوری کرنے کیلئے کام نہیں کرتیں ۔ بیشتر خاندانوں میں کفالت کی ذمہ داری خواتین کے کندھوں پر ہوتی ہے جن میں سنگل پیرنٹ اور غیر شادی شدہ خواتین دونوں شامل ہیں ۔ اس لئے خواتین کی تنخواہوں میں مساوات ان کی پریشانیاں کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی ۔زیادہ تر ورکنگ ویمن پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرتی ہیں ۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی کے باعث دیر تک اسٹاپ پر بس کا انتظار کرنا ، ٹریفک جام کی صورتحال اور بسوں کی خستہ حالی بھی ذہنی اذیت اور جسمانی تھکن کا سبب بنتی ہے ۔ ہماری حکومتیں دعووں کے باوجود ٹرانسپورٹیشن کے مسائل حل کرنے میں تاحال ناکام ہیں ۔پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے والی خواتین اچھی طرح جانتی ہیں کہ گھر کی دہلیز سے آفس کے راستے تک لوگوں کی نامناسب نظریں ، فقرے اور بعض اوقات غیر اخلاقی حرکتیں انہیں کیسے کوفت اور نفسیاتی دباو کا شکار کرتی ہیں ۔مندرجہ بالا تمام مشکلات کے ساتھ سب سے اہم مسلہ جنسی ہراسانی اور استحصال ہے جو آج کل بڑے بڑے فورمز پر موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ قومی ویمنز ہاکی ٹیم کی سابقہ گول کیپر سعدیہ کا جنسی ہراسانی کا اسکینڈل ، کراچی ، جامشورو اور ملتان کی یونیورسٹیز میں طالبات کے ساتھ پروفیسرز کی زیادتی اور غیر اخلاقی حرکات منظر عام پر آنے کے بعد اس موضوع کی شدت میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ پاکستانی معاشرے کا مزاج ہی ایسا ہے کہ یہاں عورت کی زندگی میں کسی مرد یا شوہر کا ہونا یا مضبوط فیملی بیک گراونڈ سے تعلق رکھنا ضروری ہے ورنہ بیشتر مرد ماتحت خواتین کو موقع سمجھتے ہیں ۔ عورت کی نرم مزاجی بھی بعض اوقات اس کے لئے عذاب بن جاتی ہے اور اسے آسان ہدف تصور کیا جاتا ہے ، ایسی صورتحال سے بچنے کے لئے لہجے کی سختی کو ہی ڈھال بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر ملازمت پیشہ خواتین کے چہروں پر کم عمری میں ہی کرختگی کے آثار نمودار ہوجاتے ہیں ۔وفاقی و صوبائی سطح پر پر دفاتر میں جنسی استحصال اور ہراساں کئے جانے کی شکایات سننے اور ان کا ازالہ کرنے کے لئے محتسب کا تقرر کیا گیا ہے لیکن خواتین محتسب سے رجوع کرنے سے کتراتی ہیں کیونکہ انہیں عزت نفس اور ملازمت کے ہاتھ سے جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔پی ٹی وی کی اینکرز کے کیس میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ انہیں جاب سے ہی ہاتھ دھونا پڑا ۔ پدر سریت معاشرے میں عورت کے معاملے میں عام مڈل کلاسئیے کی سوچ بھی کسی وڈیرے سے کم نہیں ۔ عورت کو کموڈٹی سمجھا جاتا ہے اور اس کا جذباتی و جسمانی استحصال اپنا پدر سری حق ۔یہاں کتنے ہی مرد ہوں گے جو عورت کو بحیثیت انسان اور کولیگ عزت دیتے ہوں گے ؟ نصرت سحر عباسی اور امداد پتافی کی صوبائی اسمبلی میں بیان بازی بھی سب کو یاد ہوگی ۔ اس معاملے میں اپر کلاس سے لوئر تک مردوں کی اکثریت ایک برابر ہے ۔ پڑھے لکھے بظاہر مہذب گھرانوں کے مردوں کو بھی صرف اپنے گھر کی عورت ہی عورت لگتی ہے ۔ بقول منٹو باہر کی عورت ان کے لئے صرف گوشت کی دکان ہے جس پر وہ نظریں گاڑے رکھتے ہیں ۔ جنسی ہراسانی اور استحصال کے واقعات کی روک تھام اور معاشرے کی امتیازی سوچ کے خاتمے کے لئے مردوں کی ذہنی تربیت اور سماجی رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ان تمام چیلنجز سے نبرد آزما ہوتے ہوئے ہماری خواتین ہر شعبے میں اپنی دھاک بٹھارہی ہیں ۔ خواتین کو معاشرے میں مساوی سیاسی ، معاشی و سماجی حقوق دینے والے بالشویک انقلاب کے لیڈر ولادیمیر لینن کے مطابق ہماری خواتین شاندار طبقاتی جنگجو ہوتی ہیں ۔ محنت کشوں کی کوئی بھی تحریک خواتین کی شعوری مداخلت کے بغیر کامیاب نہیں ہوتی ۔ روسی انقلاب ہو یا اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی سعودی عرب یا ایران کی خواتین ، بحرین میں ریاستی جارحیت کے خلاف احتجاج یا ترکی میں جمہوریت کے خلاف ہونے والی سازش کا راستہ روکنے کی تحریک ، ہر موقع پر خواتین ایک بڑی طاقت کی صورت میں سامنے آئی ہیں ۔

اپنا تبصرہ لکھیں