مہر کے بارے میں غلط تصورات اور انکا حل

پروفیسر ثریا بتول علوی
مرد فوراً کہ دیتے ہیں کہ ہم نے بیوی سے معاف کرا لیا۔اس سلسلے میں ضروری ہے کہ یہ معافی قانونی ہونی چاہیے۔
ہمارے ہاں مہر کے بارے میں ایک غلط تصور رائج ہو گیا ہے۔کہ وہ یا تو طلاق کے وقت ادا کیا جاتا ہے یا مرتے وقت بیوی سے معاف کرا لیا جاتا ہے۔اگر مرد کو بیوی سے مکرتے وقت معاف کرانی کی مہلت نہ ملی تو موت کے بعد اس کے ترکے میں سے بیوی کو اا کر دیا جائے گا۔مگر یہ سارا نقطہء نظر مہر کے بالکل خلاف ہے۔حق تو یہ ہے کہ مہر فوراً ادا کیا جائے اور اگر مرد کی سہولت کی خاطر اسے مہلت دے دی جاتی ہے تو اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اب طلاق کے سواء دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ہر خدا ترس مرد کو مہر سے جلد از جلد فارغ ہونے کی فکر کرنی چاہیے۔اور عمداً یا لا پر واہی سے ٹال متول کر کے قرض چھوڑ کر نہیں مرنا چاہیے۔کیونکہ اس طرح تو وہ مقروض مرتا ہے اور نبی اکر م صلی اللہ علیہء وسلم تو مقروض کی نماز جنازہ بھی پڑہانے سے انکار فرما دیتے تھے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ
۱۔حق مہر مالی استطاعت سے بڑھ کر نہ باندھے جائیں۔
۲۔فیالفور ان کو ادا کرنے کی کوشش کی جائے
۳۔اگر ذیادہ ہے اور فوری ادائیگی ممکن نہیں تو اسے قسط وار ادا کیا جائے۔یا کچھ حصہ بیوی سے معاف کرا لیا جائے۔بیوی بھی اگر نیک دل ہو گی تو ضرور تعاون کرے گی۔
۴۔مگر مردوں نے آجکل حکم قرآنی ،باہمی رظامندی سے حق مہر میں کمی بیشی ، سے جو مفہوم مراد لیا ہے وہ کہ لاز ماً عورتوں سے معاف کرانا ہی ہے اور لازماً حق مہر کو موجل ہی رکھنا ہے ۔یہ شریعت کے ساتھ مذاق ہے۔
اس رجحان کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔اس کے مقابلے میں تھوڑا حق مہر رکھنا اور فوری ادا کرنا بہت اچھا ہے۔ذیادہ حق مہر میں ایک قباحت یہ بھی ہے کہ اگر خدا نخساسطہ میاں بیوی میں موافقت نہ ہو سکے تو یہ حق مہر بیوی کے لیے بہت بڑے ملال کا باؑ ثبن جاتا ہے۔نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ بن جاتا ہے۔مرد اسکو اتنا مہر نہیں دے سکتا لہٰذا وہ غریب لٹکی رہ جاتی ہے۔
بوقت نکاح مہر کی عدم صراحت کی صورت میں تمام مہر معجل متصور ہو تو بہت اچھا ہے۔اور اگر یہ بیوی کو زیورات اور کپڑوں کی شکل میں دیا جائے تو اور بھی اچھا ہے۔
کیونکہ بعد میں مہر اداد کرنے والی جتنی بھی صورتیں ہیں ان میں نزع کی کوئی نہ کوئی صورت ضرور پیدا ہو جاتی ہے۔مرد فوراً کہ دیتے ہیں کہ ہم نے بیوی سے معاف کرا لیا۔اس سلسلے میں ضروری ہے کہ یہ معافی قانونی ہونی چاہیے۔اس پر سرپرستوں کے گواہ ہوں تاکہ بعد میں کوئی اختلاف نہ پیدا ہو سکے۔
جاری ہے۔۔۔۔اگلی مرتبہ ملاحظہ کریں
مہر صرف عورت کا حق
اقتساب
تحریک نسواں اور اسلام

اپنا تبصرہ لکھیں