موسم گرما کیا واقعی جبری شادیوں کا موسم ہے؟

By Shazia Andleebshazia logo 22نارویجن وزیر امیگریشن سلوی لست ہاؤگ نے ایک اخباری بیان میں موسم گرما کی چھٹیوں کو جبری شادیوں کا موسم قرار دیا ہے۔اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ موسم گرما کی چھٹیوں کے دوران تارکین وطن اپنے بچوں کے ساتھ اپنے اپنے وطن روانہ ہوتے ہیں جہاں وہ اپنے بچوں کی شادیاں اٹھارہ سال سے کم عمر میں ان کی مرضی کے خلاف کر دیتے ہیں ۔اس کے بعد بیشتر خاندان اپنے بچوں کو واپس ناروے نہیں لاتے جس کی وجہ سے انکی تعلیم کا سلسلہ رک جاتا ہے۔
اسکولوں میں طلبہ کی مشیر عائلہ خان نے اس سلسلہ میں بتایا کہ پچھلے سال بھی چار سو کے لگ بھگ ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جس کے پیچھے ان کی کم عمری میں زبردستی شادی تھی۔اس سلسلے میں پاکستان اور عراق کا نام ٹاپ پر ہے۔اس بیان کو جھٹلانا یا غلط کہنا اتنا آسان نہیں جتنا کہ ہمارے پاکستانی سیاستدانوں یا وزراء کے بیانات کو جھٹلانا ہے۔اس لیے کہ نارویجن وزیر امیگریشن نے جو بیان دیا ہے وہ بے بنیاد نہیں ہے۔اسکی بنیاد ان واقعات اور حادثات پر ہے جو کہ ناروے میں رہنے والی پاکستانی کمیونٹی میں پیش آتے رہے ہیں۔ان واقعات کے نتیجے میں مختلف جرائم اور نہائیت تکلیف دہ اور شرمناک صورتحال پیش آ چکی ہے جو کہ پاکستانیوں کے لیے خاصی باعث شرمندگی ہے۔گو کہ اب ان واقعات میں کافی حد تک کمی آ چکی ہے لیکن اکا دکا واقعات ابھی بھی ہو رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ نارویجن حکومت نے ان واقعات کے تدارک کے لیے امیگریشن قوانین سخت کر دیے جس کے نتیجے میں پاکستان میں شادیاں کرنے والے جوڑوں کے ساتھیوں کی ناروے آمد کو بہت مشکل بنا دیا گیا۔بیرون ملک اور اپنے وطن میں شادیوں کے رجحانات کو کم کرنے کے لیے قوانین اور پراجیکٹ بنائے گئے۔یہی وجہ ہے کہ اب پاکستانی کمیونٹی ناروے میں ہی موجود خاندانوں کے ساتھ شادیوں کو ترجیح دے رہی ہے۔اس کے علاوہ پڑوسی ممالک میں بسنے والے پاکستانی بھی آپس میں شادیاں کر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ موسم گرما شروع ہوتے ہی پاکستانی کمیونٹی میں شادیوں کی تقریبات کی ہلچل مچی ہوئی تھی۔اب جو تقریبات رہ گئی ہیں وہ ماہ رمضان کے فوری بعد پایہ تکمیل تک پہنچیں گی۔گو کہ اس سلسے میں بھی کئی پیچیدگیاں ہیں مثلاً زندگی کے ساتھی کے انتخاب سے لے کر شادی تک ایک مرحلہ ہے تو دوسرا آزمائشی مرحلہ ایک جوڑے کی شادی کے بعد شروع ہوتا ہے جس میں شادی شدہ جوڑے کے آپس کے تعلقات سے لے کر ان کے سسرالی اور قریبی عزیز و اقارب کے ساتھ میل جول وغیرہ شامل ہیں۔یہ سب باتیں ایک نئے شادی شدہ زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں جسکا اثر انکی آئندہ زندگی پر بھی پڑتا ہے۔بالکل ایسے ہی جیسے کسی طالبعلم کی بنیادی تعلیم و تربیت اچھی ہو تو اسکا تعلیمی کیرئیر شاندار ہوتا ہے اگر شادی کے ابتدائی سال اچھے طریقے سے گزریں تو باقی زندگی ۔ایک نارویجن مسلامن کی حیثیت سے نیا جوڑا کیسے اچھی زندگی گزار سکتا ہے؟جیون ساتھی کے انتخاب کے لیے کیا باتیں مد نظر رکھنی چاہییں؟اور اسی طرح کے بہت سے سوالات اور جوابات کے لیے پاکستانی تنظیموں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پراجیکٹس بنائیں۔خاص طور سے کمیونٹی اور خاندانوں کے مابین بے اتفاقی کے لیے پروگرام ترتیب دیں کیونکہ اس کی وجہ سے بھی بہت حزیمت اٹھانی پڑتی ہے۔اس سلسلے میں خواتین کی آرگنائیزیشن انٹر کلچرل وومن آرگنائیزیشن کئی کورسز متعارف کروا رہی ہے جس سے یہاں کے لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔جو لوگ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ اردو فلک ڈاٹ نیت سے رابطہ کرر سکتے ہیں تاکہ انکا پیغام تنظیم کی سربراہ غزالہ نسیم کو پہنچایا جا سکے۔انکی اپنی ویب سائٹ بھی ہے۔
نارویجن ارینجڈ میرج کو بھی جبری شادفی ہی سمجھتے ہیں یہ بات ہمیں انہیں سمجھانا ہو گی کہ اس میں والدین اور بچوں دونوں کی مرضی شامل ہوتی ہے۔ہمارا تعلق ا س دین محمدی سے ہے جس میں مکہ کی ایک دولتمند اور کوبسورت خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ اپی عمر سے پندرہ برس کم نو جوان کو شادی کا پیغام بھجواتی ہیں ۔یہی نو جوان بعد میں نبوت کے عظیم عہدے پر فائز ہو کر دنیا کو حیران کر دیتے ہیں۔نبی پاک ﷺ کے روپ میں پوری کائنات کے عظیم رہنماء بن جاتے ہیں۔خیر یہ تو بات تھی اصلاح کی اب جبکہ پاکستانی کمیونٹی میں جبری شادیوں کا زور ٹوٹ چکا ہے لوگ ارینجڈ میرج اور پسند کی شادیاں کر رہے ہیں تو اس مثبت رجحان کو آگے کیوں نہیں لایا جا رہا۔کوئی جا کر نارویجن وزیر کو بتا ئے کہ اب ہم خود کو تبدیل کر رہے ہیں۔اور یہ کہ اسلام پسند کی شادی کی اجازت دیتا ہے اس میں جبری شادی جائز نہیں۔جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اسلام پر عمل نہیں کر رہے۔لیکن اس سے پہلے ہمیں ایسی شادیوں کے اعداد و شمار اکٹھے کرنا ہوں گے جو کہ کوئی تنظیم ہی کر سکتی ہے۔اس کے بعد ہی کوئی ٹھوس ثبوت پیش کیے جا سکتے ہیں۔
دوسرا جو الزام ہے تارکین وطن پر کہ ان کے والدین نو جوان بچوں کو واپس ناروے نہیں لاتے کہ وہ کہیں بالکل نارویجن نہ بن جائیں ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ناروے میں بچوں کو معاشرے میں گھل مل کر رہنے کے نام پر جو انٹیگریشن کی جاتی ہے اس کے نتیجے میں بچے اپنا تشخص کھو دیتے ہیں جس کی وجہ سے والدین انہیں وطن میں رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔مسلمانوں کے لیے انکا مذہبی اور ثقافتی تشخص اہم ہے جبکہ ناروے میں سارا زور آزاد زندگی اور مادی ترقی پر دیا جاتا ہے۔اگر والدین اپنے بچوں میں اسلامی روایات کے ساتھ ترقی کے رجحانات دیکھیں تو وہ ایسا نہیں کریں گے۔ہاں البتہ اس بات کا تعین ضرور ہونا چاہیے کہ انتہا پسندی کیا ہے اور میانہ روی کسے کہتے ہیں۔یہ سب باتیں مل بیٹھ کر حل کرنے کی ہیں وزیر ثقافت کا یکطرفہ بیان اس مسلہء کو حل نہیں کر سکتا۔اس لیے ہم سب کو مل کر اسکا حل نکالنا ہو گا تاکہ آنے والے دن ہماری کمیونٹی کے لیے کم مسائل اور ذیادہ کامیابیاں لائیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں