موسم بہار خون کا دریا ور دل کا سمندر

chasam falk.....وہ ماہ اپریل کی ایک روشن اور چمکدار صبح تھی۔ موسم بہار اسلام آباد میں پورے جوبن پہ تھا۔ یہ شہر جو کہ دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلہ ہمالیہ کے سائے میں آباد ہے۔ یہاں ہر برس موسم بہار کی رت رنگوں خوشبوؤں پرندوں کے گیتوں اور تتلیوں کی برسات لے کر اترتی ہے۔دس اپریل کا دن بھی ایک ایسا ہی دلکش دن تھا۔جڑواں شہروں کے مکین اپنے معمول کے کاموں میں مصروف تھے۔اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ خوبصورت دن چند گھنٹوں میں کیسی قیامت لانے والا ہے۔جو کئی زندگیاں چھین لے گا اور ہنستا بستا شہر جل کر خاک ہو جائے گا۔یہاں ایک ایسی آگ اور شعلے بلند ہونے والے ہیں جو نہ صرف وہاں کام کرنے والوں کو جلا کر خاکستر کر دیں گے بلکہ جڑواں شہریوں کے باسیوں کے لیے بھی موت کا پیغام بن کر آئیں گے۔وہ شہر جن کی فضاؤں میں خوش رنگ پرندے اور تتلیاں رقص کرتے تھے وہاں موت رقص کرنے لگی۔پرندے اور تتلیاں تو اپنی چھٹی حس سے خطرے کی بو سنگھ کر اس علاقے سے صبح سویرے ہی کوچ کر چکے تھے۔مگر اپنے مستقبل سے بے خبر انسان اپنے معمول کے کاموں میں مصروف تھا۔بازاروں میں چہل پہل تھی،دفتروں میں لوگ کاموں میں مصروف تھے جبکہ بچے اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی میں مصروف تھے۔میں اپنے گریجویشن کے امتحان سے فارغ ہو کر بیکن ہاؤس اسکول میں عارضی طور پر جاب کر رہی تھی۔وہاں مجھے نرسری کلاس جیسی دلچسپ کلاس ملی تھی۔بچوں کے ساتھ کام کرنے اور کھیلنے میں بہت لطف آتا تھا۔کلاس کی شیشے کی کھڑکیوں پر بچوں کے ہاتھوں سے رنگ کیے ہوئے پیلے پیلے آم لٹک رہے تھے۔موسم بہار کی عطر بیز ہوائیں جب انہیں جھلاتی تو اک خوبصورت سماں بندھ جاتا۔باہر اسکول کے وسیع و عریض لان میں رنگ رنگ کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو اک عجیب سرور بکھیر رہی تھی۔یہ دس اپریل کی صبح تھی۔ٹھیک دس بجے فضاء گولیوں کی تڑا تڑ سے گونج اٹھی۔یہ کوئی بم دھماکہ یا جنگی فضائی حملہ نہیں تھا۔گولیوں کی تڑا تڑ کے بعد فضاء میں مختلف قسم کے دھماکوں کی خوفناک آوازیں کسی بد مست ہاتھی کی طرح چنگھاڑنے لگیں۔ان آوازوں میں بموں ،راکٹوں اور لانچروں کے دھماکوں کی آوازیں شامل تھیں۔اسکول کے پرنسپل کے اشارے پر سب ٹیچرز نے بچوں کو کلاسز سے باہر نکالا میری کلاس میں تقریباً بیس بچے تھے۔میں بھی جلدی سے اپنے آنسو چھپاتی ہوئی بچوں کو بحفاظت لے کر باہر نکلی۔باہر نکل کر ساتھ والے وسیع بنگلے کی اینٹوں کی فصیل کی اینٹیں ہاتھوں سے اکھیڑیں اور بچوں کو ساتھ والی کیاری میں اٹھا اٹھا کر جلدی جلدی سے پھینکنا شروع کیا۔میرے ساتھ ایک اور کلاس کے بچے بھی تھے جس کی ٹیچر اپنی جان بچانے کے لیے اپنی گاڑی میں جا چکی تھی۔ ہم لوگ اس گھکول کے ساتھ والے بنگلے کے ورانڈے میں کھڑے ہو گئے۔ہمارے ساتھ اس وقت اسکول کی ہیڈ مسٹریس انجم بھی تھی۔پھر اچانک ایک فوجی نمودار ہوا ۔اس نے بتایا کہ یہ ایک اصلحہ کے ڈپو میں آگ لگی ہے۔خطرے والی کوئی بات نہیں۔جلد ہی آگ پر قابو پا لیا جائے گا۔آپ بالکل نہ گھبرائیں۔کسی محفوظ جگہ پہ چلے جائیں اور باہر نہ نکلیں۔پھر ہم لوگ کئی بنگلوں کی باؤنڈری والز پھلانگتے ہوئے بہت آگے نکل آئے۔سارے بنگلے خالی اور ویران تھے۔ان کے مکین پناہ کی تلاش میں گھروں سے بھاگ چکے تھے۔پھر میں ایک بنگلے کے ڈرائنگ روم میں بچوں کو لے کر بیٹھ گئی۔یہ ایک بہت بیش قیمت اور سجا سجایا پر تعیش ڈرائنگ روم تھا۔مگر اس وقت اپنے مکینوں سے خالی اور پناہ گزین بچوں اور ایک ٹیچر سے پر تھا۔میں لمحہ بھر کو ٹھٹکی۔اپنے اطراف کا جائزہ لیادل کو تٹولا تو دل میں آئیت الکرسی کا ورد تھا ور لبوں پر سب کی سلامتی کی دعا تھی۔بنگلے کے باہر سے انواع اقسام کے اصلحے کی آوازیں کسی بد مست ہاتھیوں کے ریوڑ کی طرح چنگھاڑ رہی تھیں۔پھر ایک لمحاتی سکوت کے بعد دل میں سکون کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا۔باہر آگ اور خون کا بازار گرم تھا۔اور دل کے اندر سکون کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر۔اس سمندر کی گہرائیوں سے ایک احساس ابھرا جو قلب و دماغ میں سرور کی طرح بکھر گیا۔محسوس ہوا کہ اب ہم لوگ جیسے ایک حفاظتی حصار کے اندر ہیں جسے کوئی گولی کوئی بم کوئی راکٹ کوئی لانچر اور کوئی اصلحہ پار نہیں کر سکتا۔ہم سب محفوظ ہیں۔آن واحد میں اسکول وین کا ڈرائیور کئی بچوں کے والدین وارد ہوئے اور اپنے اپنے بچوں کو اپنے سینے سے چمٹا کر لے گئے۔رگوں میں سرائیت کر جانے والا یہ احساس اس قوت ایمانی کا حصہ تھا جس میں صرف اور صرف دوسروں کی مدد کرنے اور معصوم بچوں کی جانیں بچانے کا جذبہ موجزن تھا۔
انسان جب بھی کسی کی مدد کی کوشش کرتا ہے اسے اس سے صلہ کی توقع نہیں رکھنی چاہیے بلکہ صرف اورصرف اللہ کی خوشنودی کو مقصد بنانا چاہیے۔ہمارے ایک بہت ہی نیک ملنے والے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ جب آپ کسی سے احسان کریں اور وہ آپ کے ساتھ برائی کرے تو سمجھیں کہ آپ کی نیکی قبول ہو گئی۔
خیر بچے گھر چلے گئے اور میں بھی گھر کی جانب روانہ ہوئی تو پورا شہر ایک ویران قصبہ کا منظر پیش کر رہا تھا۔دوکانیں اور بازار بند تھے۔جگہ جگہ سے دھواں اٹھ رہا تھا۔اصل میں جس اصلحہ کے ڈپو میں یہ حادثہ پیش آیا تھا۔ یہ شہری آبادی کے پاس ہی تھا۔یہاں پہ اسٹور کیا جانے والا اصلحہ افغان روس جنگ میں اور ملک کے دیگر فوجی اڈوں کو سپلائی کیا جاتا تھا۔کسی قسم کے حقائق کو چھپانے کے لیے یہاں عارضی طور پر آگ لگا دی گئی تھی۔یہ آگ غیر متوقع طور پر پھیل گئی۔جتنی دیر تک آگ پر قابو پایا گیا ہزاروں شہریوں کی جانیں چلی گئیں اور کئی زخمی ہو گئے۔یہ آگ کے شعلے کئی ہفتوں تک جلتے رہے۔اصلحہ کا یہ ڈپو فوج کے کنٹرول میں تھا۔جب یہ تعمیر کیا گیا تھا۔اس وقت یہ ایک ویران علاقہ تھا۔لیکن بعد ازاں بغیر ٹھوس منصوبہ کے بڑھتی ہوئی بے ہنگم آبادی خطرے کے نشان کو کراس کرتی ہوئی اصلحہ ڈپو کے پاس جا پہنچی۔یہاں پر موجود اصلحہ میں سے فیوزنکالے ہوئے تھے۔جس کی وجہ سے یہ اصلحہ پھٹا تو نہیں مگر آگ کے شعلوں کی حدت سے کئی کئی میل کے فاصلے تک اڑ کر گیا۔کہیں کسی گھر میں گرا۔کہیں کسی دھواں اڑاتی گاڑی کے پیچھے پیوست ہوا تو کہیں کسی شہری پہ جا گرا۔یہ سیاستدانوں کی اور کسی حد تک عسکری قیادت کی بھی ذمہ داری تھی کہ یا تو اسے کہیں دور منتقل کیا جاتا یا پھر شہری آبادی کو اس سمت میں نہ بڑھنے دیا جاتا۔یہ ایک ایسی بڑی غلطی ہے جسے قسمت کا حوالہ دے کر دامن نہیں بچایا جا سکتا۔اس اقعہ کے ذمہ دار وہ تمام اہل اختیار ہیں جو کہ شہری آبادیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔بہر حال یہ ایک اتنا بڑا قومی حادثہ تھا جس میں مالی و جانی اور معاشی ہر طرح کا نقصان ہوا۔مگر ہماری حکومتوں نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔اگر سیکھا ہوتا تو اس کے بعد پھر دہشت گردی کے واقعات نہ ہوتے۔لیکن اس کے بعد ان واقعات میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا۔
جب کہ فوج کا کام ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنا اسے بیرونی اور اندرونی خطرات سے بچانا اور ملک و قوم کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔پاکستانی فوج کا شمار بلا شک و شبہ دنیا کی بہترین اور بہادر افواج میں ہوتا ہے۔جس پاکستانی کو اس بات میں شک ہے اس کے محب الوطن ہونے میں بھی شک ہے۔صرف چند گنتی کے فوجیوں کی سرکشی کا الزام پوری فوج کو نہیں دیا جا سکتا۔پاکستانی عسکری طاقت نہ صرف وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے بلکہ اس کرہء ارض پر جہاں بھی اس کی ضرورت ہو یہ وہاں مدد کو پہنچتی ہے۔چاہے یہ افریقی ممالک ہوں یا پھر ارض مقدس پہ خانہ کعبہ جیسے مقام مقدس کی حرمت کا معاملہ ہو۔پاکستانی فوج کہیں بھی مظلوم و ضرورتمند اقوام کی مدد کے لیے ہمہ تن گوش رہتی ہے۔پاکستانی عسکری طاقت کے کارنامے دنیا میں کہیں بھی موجود پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کرنے کے لیے کافی ہیں۔معاملہ خواہ جنگ کا ہو قدرتی آفات کا یہ ملکی سا لمیت کی حفاظت کا فوج ہر معاملے میںآگے ہے ۔ اس لیے کہ پاکستانی فوج میں ڈسپلن عروج پہ ہے۔ڈسپلن کی پابندی ایسی صفت ہے جو اگر قوم میں اور اداروں میں ہو تو اسے کامیابی کے عروج پہ پہنچا دیتی ہے۔اگر معاشرے خاندان اور افراد میں ہو تو انکی زندگی کو کامیاب بناتی ہے۔۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈسپلن ہے کیا؟ آسان اور مختصر الفاظ میں ڈسپلن قوانین اور وقت کی پابندی کا نام ہے۔آپ اپنے آپ کو چیک کریں کہ کیا آپ کی زندگی میں ڈسپلن ہے ؟سیاچن گلیشئیر اور بنگال میں ہونے والی شکست کی ذمہ دار فوج نہیں نا عاقبت اندیش سیاستدان ہیں ورنہ ان دونوں مواقع پر فوج از خود یا صرف جرنیلی حکم کی وجہ سے پیچھے نہیں ہٹی تھی۔اس کے پیچھے دوسرے عوامل کارفرماء تھے۔اسی طرح اوجڑی کیمپ کے حادثہ کی ذمہ داری ڈائیریکٹ عسکری قیادت پہ نہیں ڈالی جا سکتی اس کے پیچھے بھی دوسرے عوامل کارفرماء تھے۔
آج دس اپریل کو جبکہ میں یہ واقعہ رقم کر رہی ہوں دو دہائیوں سے ذیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے،لیکن یہ ہر برس ٹھیک دس اپریل کو کسی فلم کی طرح میرے ذہن کے پردوں پر چلنا شروع کر دیتا ہے۔گو کہ یہ ایک بہت خوفناک واقعہ تھا مگر اس میں بھی بہت سے اسباق زندگی پنہاں ہیں۔میں نے تو اسے یہ سبق سیکھا کہ ہر مسلمان لڑکے لڑکی کو اپنے زمانہ طالبعلمی میں یا بعد میں عسکری تربیت حاصل کرنی چاہیے۔کیونکہ مجھ میں یہ قوت اس لیے آئی تھی کہ میں نے ایف ایس سی میں دو سال کی فوجی ٹریننگ لی تھی اپنے کالج میں۔ اس وقت تو صبح سویرے اٹھ کر فوجی لباس میں کالج جانا بہت مشکل لگتا تھا۔پھر سخت سردی میں فوجی مشقیں کرنا خاصا تھکا دینے والاکام تھا۔شروع میں تو یہ سب بہت مشکل لگا لیکن بعد میں محسوس ہوا کہ یہ ایک دو گھنٹے کی مشق دن بھر چاک و چوبند رکھتی۔ٹریننگ کے اختتام پر ہم لوگوں نے تئیس مارچ کے موقع پر خواتین کی پریڈ اور نشانہ بازی کی مشق میں بھی حصہ لیا۔جو کہ اصل میں ایک طرح کا امتحان تھا۔نشانے بازی میں میرے پچیس میں سے چوبیس نمبر تھے۔صرف ایک نشانہ مرکز کے دوسرے دائرے میں لگا تھا۔اگر اس قسم کی ٹریننگ ہر پاکستانی یا اکثریت لے تو وہ نہ صرف مشکل حالات میں اپنا بلکہ دوسروں کا بھی تحفظ کر سکتا ہے۔ایسے کورسز عسکری اور پولیس اور سیکورٹی کے اداروں کو تمام تعلیمی اداروں میں منظم طریقوں سے کرانے چاہیءں۔اس کے ساتھ ساتھ اسلامی بنیادی عقائد بھی راسخ ہونے چاہیءں۔
ایک مسلمان اور محب الوطن پاکستانی کی حیثیت سے آپ پر بھی ایک ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ یہ تجاویز دیں کہ ہم اپنے پاکستانی معاشرے کے لیے اور دنیا میں جہاں کہیں بھی رہائش پذیر ہیں وہاں کے معاشروں کو کیسے امن اور اور سکون کا گہوارہ بنا سکتے ہیں؟ جی ہاں میں اور آپ ہم سب مل کر !!!!
اپنا تبصرہ لکھیں