ملالہ دنیا کے بچوں کی رول ماڈل

اوسلو کی ڈائری
mussarat
مسرت افتخار حسین
اوسلو
دس دسمبر 2014 دو ہزار چودہ کا وہ لمحہ آ گیا جب پاکستان کا نام ملالہ نے پوری دنیا میں خوشبو کی طرح پھیلا دیا۔ناروے کی فضائوں میں ملالہ پاکستان کا نام گونجنے لگا۔اس سال کا نوبل پرائز پاکستان کی ملالہ یوسف زئی اور ہندوستان کے کیلاش ستھیارٹی کو بچوں کے حقوق حاصل کرنے کی جدو جہد پر مشترکہ طور پہ دیا گیا۔نوبل پرائز تقریب اور دس دسمبر کا دن اپنی روائتی شان و شوکت کے ساتھ بہت سی تبدیلیاں بھی لایا۔جب صبح ناروے کے عام اسکولوں کے بچوں نے ملالہ یوسف زئی اور کیلاش کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔جو کہ ایک تنظیم Redde barna یعنی بچوں کی حفاظت کے زیر اہتمام تھی۔بچوں نے مختلف گانے گائے اور کیلاش اور ملالہ کو متعارف کرایا۔ملالہ کو السلام و علئیکم کہہ کر اسکا استقبال کیا گیا۔اور کیلاش کو نمستے کے ذریعے خوش آمدید کیا گیا۔
بچوں کی اس تقریب میں شہزادی میتا مارت خصوصی طور پر شریک ہوئیں۔ااوسلو میں جس طرح چھ ہزار بچوںنے ملالہ کی پذیرائی کی اور پروگرام منعقد کیے یہ اس طرح پہلے کبھی نہیں ہوا ۔اب اس کی وجہ ملالہ تھی۔جو بچوں کی نمائندہ کی حیثیت سے تھیں اور کیلاش بچوں کی جدو جہد کی نمائندگی کی وجہ سے تھے۔جب ٹی وی پر بچوں سے پوچھا گیا کہ آپ کس طرح اور کیوں یہ دیکھنے آئے ہیں تو بچوں نے کہا کہ ہم ملالہ کو دیکھنے آئے ہیں۔بارہ بجے ملالہ یوسف زئی اور کیلاش بادشاہ کے محل میں مدعو تھیں ۔جہاں حسب روائیت شاہی خاندان سے ملاقات اور ان کے اعزاز میں لنچ کھایا گیا۔ایک بج کر پچاس منٹ پر
Råd hus مشاورتی کونسل ہائوس کے ہال میںتمام اعلیٰ سرکاری سیاسی اور تنظیمی عہدے دار اکٹھے ہو چکے تھے۔
اور جیسے ہی ملالہ ،کیلاش بادشاہ و ملکہ اور ولی عہد اورپرنسس مارتھا کی آمد ہوئی ایک بگل بجایاگیا جو اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ مہمانان خصوصی اور شاہی خاندان آ رہا ہے۔یوں نوبل پرائز حاصل کرنے والوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہیاور ان کی عزت افزائی کی جاتی ہے۔
دنیا کا پہلا نوبل پرائز 1905 میں شروع ہوا۔جس کو یہ انعام ملا اس کا نام برتھاون تھا مگر یہ انعام اسے اس کی وفات کے بعد ملا۔نوبل کمیٹی اور نوبل پرائز کی اجہء شہرت اور اہمیت اس کا استحقاق اور میرت ہے ۔جس کی وجہ سے کسی بھی فرد ادارہ یا تظیم کو چنا جاتا ہے۔جو دنیا میں قیام امن اور امن کی بحالی کے لیے جدو جہد کر رہا ہو۔
امن کا نوبل پرائز حاصل کرنا آج دنیا بھر کا خواب بن چکا ہے۔مگر ملالہ نے تو یہ کواب بھی نہ دیکھا تھا کہ اسے تو یہ پتہ بھی نہیں تھا کہ یہ کیا ہوتا ہے۔اور کہاں دیا جاتا ہے اور کیسے دیا جاتا ہے۔اسے تو بس علم حاصل کرنے کا شوق تھا۔اس سوات کی وادی میں جہاں طالبان نے ڈیرے ڈال دیے تھے۔انہوںنے لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا۔اس رکاوٹ نے گل مکئی کو جنم دیاجس نے اس نام سے بی بی سی اردو پہ دائری لکھنی شروع کی۔جس کی وجہ سے دنیا کی توجہ طالبان کے اس ظلم و بر بریت اور عورتوں پر ظلم ڈھانے پر عورتوں کو گھروں سے باہر نہ نکلنے کی اجازت دینے پر اور لڑکیوں کو زبردستی تعلیم سے محروم رکھنے کی جانب مبذول ہوئی ۔مگر ملالہ نے طالبان کے منع کرنے کے باوجود اسکول جانا نہ ترک کیا۔اور ایک دن طالبان نے ملالہ کو اس حکم عدولی پر اسکول جاتے ہوئے اسکول وین میں تین گولیاں ماریں۔یہ اکتوبر انیس سو بارہ کا واقعہ ہے۔اس کے بعد اس ظلم نے دنیا میں ایک نئی تاریخ کا آغاز کر دیا۔شدید ذخمی حلات میں ملالہ کو انگلینڈ کے کوئین الزبتھ ہسپتال میں لائی گئی۔جہاں وہ موت کی منہ سے واپس آئی۔دنیا میں ایک نئی ملالہ نے جنم لیا یہ ملالہ بچوں کے لیے رول ماڈل بن گئی۔ملالہ کا عزم ،ملالہ کا دنیا کے تمام بچوں کو تعلیم دلانے کا عزم ،ملالہ کا بچوں اور خصوصی طور پر لڑکیوں کو تعلیم یافتہ کرنے کا عزم ،حوصلہ اصلاحات اور کام نے ملالہ کو پوری دنیا میں نامور کر دیا ہے۔اب ملالہ نام ہے عزم کا حوصلے کا آزادی کا اور حقوق اور تعلیم کا۔اور ملالہ نام ہے پاکستان کی ایک بیٹی کا۔
مشاورتی کونسل ہائوس کے ہال میں ایوارڈ دینے کی تقریب کا آغاز تھور بیورن جاگلینڈ نے صدر نوبل کمیٹی کی حیثیت سے کیا۔صدر نوبل کمیٹی نے کہا دنیا کا خمیر زندہ ہے۔جس کی کوئی حداور کوئی سرحد نہیں ہے۔بچوں کو حق ہے بچپن کا ضروریات کا خواب دیکھنے کا اور ان حقوق کا جنہیں لے کر وہ ساری دنیا میں سر اٹھا کر عزت سے جی سکیں۔مذاہب ،اسلام ہندو ازم عیسائیت جانیں دینے کے لیے نہیں زندگی دینے کے لیے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔

ملالہ دنیا کے بچوں کی رول ماڈل“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں