مسلمان یوگا کیوں نہیں کرسکتے؟

    یوں تو دنیا میں سبھی جگی جہاں مسلمانوں کی اکثریت نہیں ہے اور جہاں مسلمان کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں ،وہاں ان پر اور اسلام پر ایک اتہام یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسلام زبردستی بزور شمشیر پھیلایا ۔ لیکن ہندوستان میں یہ الزام بڑی شدت کے ساتھ عائد کیا جاتا ہے اور اسے اتنی شدت سے بار بار دہرایا جاتا ہے کہ اب مسلمان بھی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ شاید واقعی اسلام بزور قوت پھیلا ہے ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکومت میں ایسا کبھی نہیں ہوا اور انہوں نے کبھی اپنی ہندو یا کسی بھی غیر مسلم رعایا کے ساتھ جبر والا رویہ نہیں اپنایا ۔ جبر اس لئے نہیں کیا کیوں کہ مسلمانوں سے قرآن کا مطالبہ ہے کہ دین میں جبر نہیں ۔یا انہیں دوسرے کے دیوی دیوتا کو بھی برا بھلا کہنے سے منع کیا ۔لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ایک طبقہ زبردستی یہ طے کئے بیٹھاہے کہ نہیں تم کچھ بھی کہو لیکن ہم تو یہی کہیں گے کہ اسلام طاقت کے زور پر ہی پھیلا ہے ۔ اس لئے اس طبقہ کو جب بھی کوئی قوت ملتی ہے تو یہ اپنے مذہبی عقائد کو زبردست پورے ملک کے عوام پر تھوپنا چاہتا ہے ۔حالیہ نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت کو غیر معمولی جیت کے بعد سے یہ غرہ ہو گیا ہے کہ وہ ہندوانہ رسم و رواج کو ملک پر زبردستی تھوپےگی کیوں کہ ملک کے عوام نے اسے اس کا مینڈیٹ دیا ہے۔چنانچہ کئی ماہ سے اس کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں ۔اس کے لئے چند زر خرید مولوی اور سیاسی لیڈر بھی حکومت کو دستیاب ہیں ۔جو یہ کہتے ہوئے نہیں تھک رہے کہ یوگا میں کوئی برائی نہیں ہے۔یہ تو ایک ورزش ہے۔ اسے اتنی شدت سے اچھالا گیا اور میڈیا کے ذریعہ عوام میں پھیلایا گیا کہ پتہ نہیں ہندوئوں کی اکثریت اس سے کتنی متاثر ہوئی وہ اسے منانے کی کے لئے کتنی تیار ہوئی لیکن مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اور ان کے جید علما اور قائدین اس کو کرنے کو تیار ہو گئے ۔ بعض کہتے ہیں کہ تمہیں شرک سے پرہیز ہے نا تو سوریہ نمسکار کو ہٹا دو شرک ختم باقی یوگا میں کیا برائی ہے ؟ہمارے ایک بزرگ اور مہربان نے بھی کہا کہ آخر یوگا میں برائی ہی کیا ہے وہ تو ایک ورزش ہے اگر ہم اسی طرح ان کی مخالفت کرتے رہیں گے تو آپس کی غلط فہمیاں کب دور ہوں گی؟
    پہلی بات تو یہ ہے کہ یوگا صرف ایک ورزش ہی نہیں ہے بلکہ وہ ایک ویدک اور ہندو جسے سناتن دھرم کہتے ہیں اس کے تہذیب کا ایک حصہ ہے۔یعنی کہ اس میں سے کوئی شرکیہ عمل کو ہٹا کر بھی اسے صرف اس لئے نہیں اپنایا جاسکتا کیوں کہ وہ ایک غیر مذہب کی تہذیب کا حصہ ہے اور ہمیں نبی کریم ﷺ نے غیر قوموں کی مشابہت سے منع فرمایا ہے ۔اس کی دلیل میں ایک بہت مشہور حدیث ہے عاشورہ کے روزہ کے سلسلہ میں اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہود عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے ہیں کیوں کہ اس دن فرعون کے ظلم سے موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں بنی اسرائیل کو نجات ملی تھی ہم دو روزہ رکھیں گے نو دس یا دس اور گیارہ ۔اللہ کے نبی نے ہمیں نیکیوں میں تشابہت سے منع فرمایا تو اس عمل پر ہم کیوں مشابہت پر بضد ہیں جو نیکی بھی نہیں ہے جس کا کوئی ثبوت بھی قرآن و سنت میں نہیں ہے ۔ رہ گئی بات ورزش کی تو اس کے کئی طریقے رائج ہیں کئی ورزشیں سائنسی طور پر ثابت ہیں جنہیں ڈاکٹر کہتے بھی ہیں اس پر نہ مسلمانوں نے کبھی اعتراض کیا اور نہ ہی علما نے اس کی مخالفت کی ۔یہ ایک خاص رنگ لئے ہوئے ورزش کو کیوں زبردستی مسلمانوں پر تھوپا جارہا ہے ۔میری اسی بزرگ اور مہربان کا ایک سوال یہ بھی تھا کہ آخر ہمارے درمیان غلط فہمیوں کا ازالہ کیسے ہوگا؟اس پر میرا خود ایسے تمام لوگوں سے سوال ہے کہ کیا غلط فہمیوں کے ازالے کے لئے صرف یہی یوگا اور گنپتی اور دوسرے غیر مذاہب کے امور ہی رہ گئے ہیں جسے اپنا کر ہم غلط فہمیوں کو دور کرلیں گے ۔جہاں تلک غلط فہمیوں کو دور کرنے کا معاملہ ہے تو اس سمت میں کئی تنظیمیں اور افراد اپنی ذمہ داریا ں نبھا رہے ہیں ۔جمعیتہ العلما کے سابق مرحوم صدر اسعد مدنی ؒ نے اپنے دور میں دلتوں اور مسلمانوں کے ساتھ ایک پلیٹ میں کھانا کھا کر اسے دور کرنے اور دوریوں کو کم کرنے کی سمت قدم بڑھایا تھا ۔ جماعت اسلامی بھی اس سمت میں برابر کام کررہی ہے ۔اس کے علاوہ کچھ اور تنظیمیں بھی سرگرداں ہےجیسے بنگلور کی تنظیم سلام سینٹر بڑے پیمانے پر غیر مسلموں تک قرآن اور سیرت کی کتابیں پہنچانے میں مصروف عمل ہیں ۔اس کے اثرات بھی ظاہر ہو رہے ہیں ۔اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ کئی معاملے میں مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں نے مسلم مسائل پر کھل کر تحریک چلائی ہے۔لیکن اس کے باوجود مسلمان دنیا والوں کے سامنے جو کچھ پیش کر سکتے ہیں اور جس سے ماضی میں بھی اسلام پھیلا اور پوری دنیا میں مسلمانوں کا اسلام کے نام کا ڈنکا بجا وہ ہے ان کا وہ اخلاق جو قرآن کریم اور نبی ﷺ کی سیرت سے ہمیں ملا ہے جس کا آج بھی جہاں مظاہرہ ہوتا ہے بڑے سے بڑے ظالم اور بدکردار اپنا نقد دل ہار دیتے ہیں ۔ہمیں یہ اعتراف کرلینا چاہئے کہ اس اخلاق سے ہم بالکل نہیں تو کچھ حد تک عاری ہو چکے ہیں۔یہی سب وجہ ہے کہ وہ قوتیں جن کو اس غلط فہمی سے خطرہ لاحق ہے کہ اگر لوگ ایک دوسرے کے قریب آگئے تو ان کی دوکانداری بند ہو جائے گی۔وہ بلبلائے ہوئے اور حواس باختہ ہیں ۔اس لئے وہ کبھی سوریہ نمسکار اور کبھی سرسوتی وندنا اور کبھی یوگا کے نام پر ایک مذہب کی علامات اور عقائد کو تمام ادیان کے لوگوں پر تھوپنے کی کوشش کررہے ہیں۔ایک بزرگ نے ایک اور سوال کیا اگر ہم یوگا نہیں کرسکتے تو ہم انہیں کچھ دیں ۔یہاں پر وہی دین پر جبر نہیں والا فارمولا کے تحت ہمیں اسلام روکتا ہے ۔مثال کے طور پر مسلمانوں کو پانچ وقت کی نماز اداکرنے اور اسے باجماعت نافذ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔یہ بات ذہن میں رہے کہ نماز کوئی ورزش نہیں وہ خالص اللہ کی بندگی کا ایک طریقہ ہے جو نبی ﷺ کو معراج میں بطور تحفہ عطا ہوا تھا ۔لیکن اس کا ایک ذیلی اور ضمنی فائدہ یہ ہے کہ جو اس کا اہتمام کرے گا وہ صحت مند رہے گا ۔ اس کا مشاہدہ ہم ہر روز اپنے اطراف میںکرتے ہیں۔جیسا کہ اسلام کے کئی قانون کو جزوی طور پر ہی قبول کرکے قومیں ترقی کے مدارج طےکررہی ہیں اور ہم نے اسے چھوڑ دیا تو ذلت ہمارا مقدر ہوئی۔لیکن اسلام جبر کے ذریعہ اپنے طور طریقے کسی پر نہیں تھوپتا ۔ظاہر سی بات ہے کہ پھول کو یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ وہ ایک پھول ہے اور اس کاکام خوشبو لٹانا ہے۔میں نے ایک بزرگ کی کتاب میں ’دین پر جبر نہیں‘ کے ذیل میں ان کا یہ تبصرہ پڑھا کہ اسلام کسی پر غلامی نہیں تھوپتا اور نہ ہی وہ غلامی کو پسند کرتا ہے ۔اس لئے کوئی غیر مسلم اور مفتوح مسلم قوم کی شباہت اختیار کرتا تو مسلم حکمراں اسے منع کرتے کہ تم اپنے رہن سہن لباس اور وضع قطع نہ بدلو ۔یہی وجہ ہے کہ نماز میں صحت کا فائدہ ہوتے ہوئے بھی جہاں اسلامی ارکان اور عقائد پر سختی سے عمل ہوتا ہے کسی غیر مسلم کو اس پر مجبور نہیں کیا جاتا ۔ہاں اگر کوئی اپنی خوشی سے اسلام قبول کرلے تو اس کا گرم جوشی سے استقبال کیا جاتا ہےاور اس کے لئے انفرادی اور اجتماعی طور پر کئی لوگ اور تنظیمیں میدان عمل میں ہیں وہ اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں جبر نہیں ۔آخر میں صرف اتنا کہنا ہے کہ اسلام کا دامن اتنا تنگ نہیں کہ مسلمان اب غیر قوموں کی تہذیب خواہ وہ ورزش کے ہی نام پر ہو قبول کرلیں ۔وہ اسلام کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ اسلام نے ان کے لئے ہر لمحہ کے لئے ہر جغرافیائی خطہ کے لئے احکام دئے ہیں ۔اس پر صحابہ کرام اور دیگر بزرگوں کے عمل بھی ہیں جس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ اسلام پر مکمل طور سے عمل کرنا اور غیر وں کی تہذیبی یلغار سے محفوظ رہنا آسان ہے ؟اوپر مذکور حقائق کی روشنی میں کوئی بتائے کہ جبر کس نے کیا اس کی کیا حقیقت ہے اور اب کون جبر کررہا ہے اور اس کے پیچھے کون سے مقاصد ہیں ۔یہ پورے ملک کے عوام کو ہندو بنا دینا چاہتے ہیں ۔ حالانکہ معاملہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو ملاکر یہ اسی فیصد کی ہندو آبادی کا پروپگنڈہ کرتے ہیں وہ خود سوالات کے گھیرے میں ہے کہ ہندوئوں کی آبادی کی اکثریت کہتی ہے کہ کہ ہندو دھرم کا دوسرا نام ہی برہمنیت ہے ۔بعض غیر مسلم تنظیمیں اور ان کی قوم کے لوگ تو کھلے عام یہ کہتے ہیں کہ ’ہم ہندو نہیں ہیں ہمیں ہندو مت کہو‘ ۔لیکن چونکہ ہر اہم عہدوں پر برہمن قابض ہیں اس لئے ان کی ذات کی بنیاد پر ۲۰۱۱ کی مردم شماری کو بھی عام نہیں کیا گیا ہے کہ مبادا ہندو کے نام پر برہمنیت کے ماننے والوں کی آبادی اقلیت میں ہے یامسلمان؟

نہال صغیر،ممبئی، موبائل :9987309013
اپنا تبصرہ لکھیں