’فوجیوں کو ڈیفنس میں بنگلے نہیں ملنے چاہئیں‘ ایک بریگیڈیئر کی بیٹی نے عام بولے جانے والے اس جملے کا سب سے بہترین جواب دے دیا

’فوجیوں کو ڈیفنس میں بنگلے نہیں ملنے چاہئیں‘ ایک بریگیڈیئر کی بیٹی نے عام بولے جانے والے اس جملے کا سب سے بہترین جواب دے دیا

ڈیفنس میں فوجیوں کو بنگلے دیئے جانے کا معاملہ بعض حلقوں میں زیربحث رہتا ہے اور ایک موقف یہ پایا جاتا ہے کہ انہیں یہ بنگلے نہیں ملنے چاہئیں۔ اب ایک بریگیڈیئر کی بیٹی نے اس جملے کا بہترین جواب دے دیا ہے۔ ویب سائٹ ’پڑھ لو‘ کے مطابق اس لڑکی نے لکھا ہے کہ ”میرا باپ بریگیڈیئر ہے اور اگلے سال اس کی ترقی ہونے والی ہے۔ سنیارٹی کے ساتھ فوجیوں کو متعدد گاڑیاں، ڈرائیورز، باورچی، سویپرز، 5بیڈرومز کے گھر ملتے ہیں، جن میں زندگی کی تمام آسائشیں ہوتی ہیں، الحمد اللہ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ ہم فوجیوں کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہوتا ہے، سوائے ذہنی سکون کے۔“

وہ مزید لکھتی ہیں کہ ”جب رات کو میں اپنی ماں کو اپنے والد کی فون کا کا انتظار کرتے ہوئے دیکھتی ہوں، جب میں شہداءکے متعلق آرٹیکلز اور خبریں پڑھتی ہوں تو میرا جسم سرد پڑ جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میرا باپ ڈیوٹی پر گیا ہے تو کیا معلوم کہ ان کی آواز دوبارہ سننی نصیب ہو گی یا نہیں۔ یہ احساس مجھے انتہائی خوفزدہ کر دیتا ہے۔ ہر روز کئی خطرناک آپریشنز ہوتے ہیں جن میں میرے والد اور دیگر فوجی افسران حصہ لیتے ہیں۔ طالبان آفیسرز کو پکڑ لیتے ہیں، ان پر حملے کرتے ہیں، شہادتیں ہوتی ہیں۔ ایسی بہت سی باتیں آپ لوگ بھی میڈیا پر سنتے رہتے ہوں گے لیکن ان باتوں پر کوئی بحث نہیں کرتا۔ بحث ہوتی ہے تو صرف فوجیوں کو ملنے والے بنگلوں پر۔ ہم، جن کے باپ ان خبروں کا مرکز ہوتے ہیں، جانتے ہیں کہ ایسی خبریں سن کر ہم پر کیا گزرتی ہے۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ میرے باپ یا کسی بھی آفیسر کو کیا چیز اپنا کام جاری رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ میرے خیال میں وہ ان کے ملک کے لیے جذبے کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ فوج اپنے افسروں اور جوانوں کو زیادہ رقم نہیں دیتی اور زندگی کی ضمانت بھی نہیں دیتی۔ پھر بھی یہ بہادر سپاہی ملک کے لیے اپنے زندگیاں وقف کر دیتے ہیں۔اس کے باوجود جب میں دیکھتی ہوں کہ ملک میں ان سپاہیوں کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے تومجھے بہت صدمہ ہوتا ہے۔ “

اپنا تبصرہ لکھیں