غیر مسلم ملک میں مسلم اسکول

تحریر شازیہ عندلیب
پچھلے دنوں ناروے میں حکام کی جانب سے مسلم اسکول کے قیام کی درخواست منظور ہونے کے بعد اس موضوع پر بحث طول پکڑ چکی ہے۔ اس سلسلے میں مختلف حلقوں اور مکاتب فکر لوگ اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔یوں تو یہ کوششیں کافی عرصہ سے جاری تھیں مگر اس میں ذیادہ تحریک اس وقت پیدا ہوئی جب اوسلو میں صومالین بچوں کی مائوں نے مل کر محکمہء تعلیم کو درخواست دی۔یہ درخواست منظور کر لی گئی مگر مقامی لوگ چار سال قبل اڑتے گاتا میںجو مسلم اسکول بد نظمی اور گروہ بندی کا شکار ہو کر بند ہو چکا تھا کو ابھی تک نہیں بھولے۔درخواست کی منظوری کے بعد کئی معاشرتی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف احتجاجی درخواستیں داخل کروائی گئیں۔

اس مسئلے کے کئی پہلوہیں جنہیں غیر جانبدار ہو کر پرکھنے کی ضرورت ہے تاکہ مسلم اسکول کے پراجیکٹ کی افادیت کو سمجھا جا سکے اور مخالفت کرنے والوںکے موقف کی صحیح جانچ بھی کی جا سکے۔اس مسلے کے بڑے پہلوئوں میں سیاسی،معاشی اور معاشرتی پہلو ہیں۔معاشرتی پہلو یہ ہے کہ درخواست گزار مائوں کا موقف یہ تھا کہ اسکولوں میں ان کے بچے اپنا کلچر اور مذہب نہیں سیکھ رہے اس لیے انہیں ایسے تعلیمی ادارے مہیاء کیے جائیں جہاں وہ اپنے اسلامی عقائد اور صومالوی یا اسلامی تہذیب سیکھ سکیں۔جہاں تک مذہبی عقائد کا تعلق ہے تو ناروے جیسے غیر اسلامی ملک میں اسلام تو کیا کسی بھی مذہبی گروپ پر کوئی پابندی نہیں کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کرے یا پنا لباس اور رہن سہن اپنے کلچر کے مطابق نہ رکھے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں ہمیں ہر رنگ و نسل کے لوگ اپنے لباس میں اپنی اپنی زبان بولتے نظر آتے ہیں۔اسو قت اسکولوں مین مذہب کی جو کتاب رائج ہے اس میں تمام مذاہب کے بارے میں بتایا جاتا ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ مساجد کے قیام کے لیے اور دیگر مذہبی عبادت گاہوں کے لیے حکومت گرانٹ دیتی ہے جس پر اکثر مساجد کے منتظمین کا جھگڑا رہتا ہے۔ کئی مساجد میں چندہ کی نام پر خظیر رقوم بھی اکٹھی کی جاتی ہیں جن کا اکثر کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا اگر کوئی مانگے تو اسے مسجد کی انتظامیہ سے ہی الگ کر دیا جاتا ہے۔ کوئی کوئی مسجد ہی اس برائی سے محفوظ ہے۔مگر وہاں ہر ملک کے مسلمان نماز بھی پڑہتے ہیں اور بچے قرآن بھی پڑتے ہیں۔مساجد میں ہر قسم کی مذہبی سرگرمیوںکی آزادی ہے بلکہ اب تویہ سرگرمیاںسڑکوں پر بھی جاری ہوگئی ہیں جن میں عید میلاد النبی کا جلوس اور محر م میں شیعہ برادری کی طرف سے جلوس نکاے جانے والی سرگرمیاں شامل ہیں۔
س لیے مذہب اور کلچر نہ سیکھنے کی شکائیت بے جا ہے۔جولوگ یہاں آ کر بس گئے ہیں اگر انہیں یہاں مالی اور سماجی مراعات حاصل ہیں تو انہیں بھی بدلے میں اس ملک کے قوانین سیکھنے چاہیئں ،زبان سیکھنی چاہیے اور یہاں کے قانون کا احترام کرنا چاہیے۔جو قوانین ان کے مذہب اور کلچر سے میل نہیں کھاتے انہیں چھوڑ دیں یا بہترطریقے سے حکام کو بتائیں اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو وہ یہ ملک بھی چھوڑ سکتے ہیں انہیں کوئی نہیں روکے گا۔وہ کسی اسلامی ملک کا رخ کر سکتے ہیں۔ناروے میں فلاحی اور بہبودی ملک ہونے کی حیثیت سے تارکین طن کو جو سہولتیں دیتا ہے ہ اور کوئی ملک نہیں دیتا۔بیشتر صومالی اور دیگر علاقوں کے مسلمان جھگڑالو ہوتے ہیں اور صومالین عراقی مسلمان تو کئی قسم کی وارداتوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔جبکہ پڑہائی اور دیگر تربیتی کورسوں میں کم دلچسپی لیتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں اچھی ملازمتیں میسر نہیں ہوتیں۔گو کہ یہاں بھی امتیازی سلوک کیا جاتا ہے لیکن اس کی شرح دوسرے ممالک کے مقابلے میں یہاں کم ہے۔بھارت جیسے ملک کی مثال لے لیں جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے ۔انڈیا مسلمانوں کا آبائی ملک ہے مگر جس قدر بد ترین اور ناروا سلوک وہاں مقامی مسلمانوں سے کیا جاتا ہے اس کی مثال پوری دنیا میں ملنی مشکل ہے۔صومالین اس لیے ذیادہ منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں کہ ان کے بچے اور بیویاں بہت ذیادہ ہوتے ہیں وہ بچوں کی تربیت پر بالکل دھیان نہیں دیتے۔یہی وجہ ہے کہ آجکل ناروے میں بچوں کی دیکھ بھال کے اداروں میں اب صومالی بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ اس سے پہلے وہاں پاکستانیوں کے بچے ذیادہ تھے۔ویسے ایک بات ہے کہ اب صومالین مسلمانوں کی حرکتیں دیکھ کر پاکستانی ہونے پر فخر ہوتا ہے کبھی کبھی ۔یہ قوم لڑائی اور باتوں مین اتنی مصروف رہتی ہے کہ ان کے پاس پڑھائی کے لیے وقت ہی نہیں بچتا۔یہی حال بیشتر پاکستانیوں کا بھی ہے۔وہ دیہی علاقوں سے مالی مسائل سے تنگ آکر یہاں آئے ہیں ۔ان کے مالی حالات تو بدل گئے ہیں مگر انہوں نے اپنی عادات نہیں بدلیں۔آپس میں بلا وجہ کا حاسدانہ رویہ،ٹانگ کھینچنے کی عادت نے ہماری قوم کی معاشرتی خوشحالی کو نقب لگا دی ہے۔اس پر طرہ یہ کہ نارویجنوں پر تعصب کال الزام بھی ہے۔حالانکہ پاکستانیوں میں آپس میں اس سے ذیادہ تعصب ہے۔ایک علاقے کے پاکستانی دوسرے علاقے کے پاکستانی کو ایک آنکھ دیکھنا گوارہ نہیں کرتے بلکہ آنکھیں سکیڑ سکیڑ کر دیکھتے ہیں۔کئی پاکستانی تو برملا کہتے ہیں کہ ہم پاکستانیوں سے ذیادہ نہیں ملتے جلتے لیکن بچوں کے رشتوں کا پوچھیں تو وہ پاکستانی فیملیز میں ہی کرنے ہیں۔کہلاتے پاکستانی ہیں مادری زبان اردو ہے مگر اپنے بچوں کو اسکولوں میں اردو نہیں پڑہانا پسند کرتے۔اس لیے کہ وہاں اردو پڑہانے والے ٹیچر ان کے اپنے گائوں کے نہیں انکی زات برادری کے نہیں۔پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ان کے بچوں کو پڑھا کر تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔یہ بات تو بالکل نا قابل برداشت ہے۔یہ پاکستانی اپنے بچوں کو نارویجن ٹیچروں کے اس خوشی سے پڑھا لیں گے۔اپنے گائوں کے مولوی سے اردو بھی پڑھا لیں گے خواہ اسے صحیح اردو آتی ہو یا نہ آتی ہو مگر ایک کوالیفائیڈپاکستانی ٹیچر سے نہیں پڑھوائیںگے۔کیونکہ اسکا تعلق ان کے پنڈ سے نہیں ہوتا ہے۔جن علاقوں میں پاکستانی اور صومالین رہائش اختیار کرتے ہیں ان کی حرکتیں دیکھ کر آس پاس کے لوگ نارویجن اور دیگر قوموں کے رہائشی وہ علاقہ خالی کر دیتے ہیں۔اس علاقے میں مکانوں کی قیمتیں گر جاتی ہیں۔اس طرح بالکل آٹومیٹک یہاں صرف انہی کی اکثریت ہو جاتی ہے اسکولوں میں بھی پاکستانیوں اور صومالینوں کے بچے باقی بچ جاتے ہیں۔یہ وہ بچے ہیں جنہیں پڑہائی سے دلچسپی ہے نہ ان کے والدین کے پاس ان کو ہوم ورک کرانے کا ٹائم اور اہلیت ہے ۔
کیونکہ ان کے والدین کو مقامی زبان پر عبور نہیں ہوتا جبکہ اپنی زبان وہ سیکھنا نہیں چاہتے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لائق نارویجن ٹیچر ز بھی یہ اسکول چھوڑ جاتے ہیں اب پورا علاقہ ان کے قبضے میں آ گیا ۔تو پھر مسلہء کس بات کا ہے ایسے عالم میں یہ شکوہ کرنا کہ ان کے بچوں کی تربیت صحیح نہیں ہو رہی بڑے اچنبھے کی بات ہے۔بنیادی تربیت بچے کو گھر سے ملتی ہے اسکول سے نہیں ۔اسکولوں سے آنے کے بعد یہ بچے مسجدوں میں چلے جاتے ہیں جہاں انہیں ایسے مولوی پڑھاتے ہیں جن میں سے بیشتر کے پاس مستند تعلیمی اسناد نہیں ہیں۔لیکن یہ والدین کے معیار کے مطابق ہیں۔ان علاقوں اور اسکولوں میں نارویجن اقلیت میں نظر آتے ہیں۔اس طرح صومالین اور پاکستانیوں کا اپنا کلچر اور ماحول ہر طرف نظر آتا ہے پھر ایسی صورت میں شکوہ کس بات کا ہے۔
سیاسی طور پر موجودہ حکومتی پارٹی کٹر قومیت پرست اور اقلیتوں کی مخالف سمجھی جاتی ہے۔انکا منشور گذشتہ حکومت سے بالکل مختلف ہے۔گذشتہ حکومت اقلیتوں کی حامی تھی۔موجودہ حکومت پرائیویٹ سیکٹر کو ذیادہ اہمیت دیتی ہے اسلیے ملک میں پرائیویٹ اداروں کے پھیلنے کا ذیادہ امکان ہے۔اس کے علاوہ غیر نارویجن پراجیکٹس انکی ترجیہات کی لسٹ میں سب سے نیچے ہیں۔ایسی صورتحال میں مسلم اسکول کی درخواست کا منظور ہونا خاصے اچنبھے کی بات ہے۔اس پر طرہ یہ کہ مخالفت کرنے والوں میں وہ آربائیدر پارٹ ی بھی شامل ہے جوہمیشہ سے اقلیتی گروپوں اور کمزور وں کی نمائیندہ پارٹی سمجھی جاتی تھی۔ایسی صورتحال میں مسلم اسکول کا قیام ایک غیر حقیقی سوچ ہے۔ایسی صورتحال میں جبکہ مسلم ممالک میں تو مسلم اسکول اور مدرسہ کامیاب نہیں ہم لوگ یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ غیر مسلم ملک میں یہ اسکول کامیابی سے چلیں گے جبکہ ایک ایسا ہی اسکول یہاں ناکام ہو چکا ہے۔اسکا قیام محض وقت اور وسائل کا ضیاع ہو گا۔یہاں کرسچن اسکول پرائیویٹ سیکٹر میں قائم ہوئے ہیں مگر اس میں حیرت کی بات نہیں کیونکہ ایک کرسچن ملک میں کرسچن اسکول کامیاب ہو سکتا ہے مگر مسلم اسکول نہیں اسکی یہ وجوہات ہی۔
۔مسلم کمیونٹی کا تفرقہ بازی ،ٹانگ کھینچنے کی عادت
ٹیم ورک اور ڈسپلن کا فقدان
۔مقامی زبان،قوانین،ترجیحات اور انتظامی امور سے ناوقفیت
۔مضوبہ سازی اور انفرا سٹرکچر کی کمزور اہلیت
۔جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کی اہمیت سے نا واقفیت
۔مقامی لوگوں کی عدم شمولیت اور مل کر رہنے کی صلا حیت میں کمی
۔نارویجن سیاست اور فلاحی کاموں میں حصہ نہ لینے کا رجحان
اگر اسلامی تاریخ دیکھی جائے تو ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے حسن سلوک اور رکھ رکھائو سے لوگوں کو اپنے دین کی طرف مائل کیا تھا جبکہ کسی کے معاشرے میں گھس کر علیحدہ گروپ بنا کر رہنے سے معاشی فوائد تو ہو سکتے ہیں وہ بھی وقتی مگر دور رس نتائج ممکن نہیں۔مسلم اسکول کے قیام کی حمائیت کرنے والوں کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ اگر انکے اسکول اتنے اچھے ہیں تو پھر وہ اپنا ملک کیوں چھوڑ کر آئے ہیں؟؟اب یہاں پر بھی اپنے ملک والا دنگا فساد کرنا چاہتے ہیں؟؟اس وقت مسلم کمیونٹی کو دوسروں پر تنقید کے بجائے اپنے رویوں کی اور بچوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔اصلاح کے لیے ایک دوسرے کو ترغیب دلائیںمختلف عملی اور اجتماعی طریقے اپنائیں۔صرف زبانی جمع خرچ سے کام نہ لیں۔یہ دیکھیں کہ نارویجن لوگ اپنے مقاصد میں کیسے کامیاب ہیں ان کی اچھی عادات اپنائیں۔
کمزور بنیادوں پر تعمیر ہونے والی عمارت ذیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔مضبوط بنیادوں کے لیے ہمیں اپنے طور طریقوں کو بدلنا ہو گا۔
ان حالات کی روشنی میں مسلم اسکول کے قیام کے سللے میں کئی سوالات اٹھتے ہیںجن کے جوابات تلاش کرنے ضروری ہیں۔
ایسے حالات میں جبکہ پاکستان میں مذہبی اسکول ناکام ہو چکے ہیں ایک غیر اسلامی ملک میں مسلم اسکول کیسے کامیاب ہو سکتا ہے؟
کیا مقامی لوگوں کی شمولیت کے بغیر اس پراجیکٹ کو کامیاب کرنا ممکن ہے ،جبکہ مسلم ممالک کے بیشتر پراجیکٹس میں غیر ملکی شامل ہوتے ہیں؟
کیا ناروے میں مساجد میں بچے اسلام نہیں سیکھ رہے یا مذہبی تعلیم حاصل نہیں کر رہے؟ کیوں؟
یہ اسلامی اسکول کس فرقہ کے تحت ہو گا۔
کیا یہ اسلامی اسکول ہرمسلمان کے لیے ہو گا یا صرف صومالین اور پاکستانیوں کے لیے ہو گا؟
قرآن مسلمانوں کو دعوت فکر دیتا ہے آپ بھی اس مسلے پر سوچیں ،اسے موجودہ حالات کی روشنی میں پرکھیں اور اس موضوع پر اپنی رائے اردو فلک ڈاٹ کام پہ لکھ بھیجیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں