’’علی شاہ۔۔۔زندگی جن کے تصور سے جِلا پاتی تھی‘‘

یادیں.باتیں
ارم ہاشمی

’’وہ شراب کے نشے میں دھت سٹیج پر ہی ڈھے گیا۔مشاعرہ کے ا ختتام کے بعد سٹیج پراترتے چڑھتے لوگوں کے پاؤں کی ٹھوکروں کی زد میں تھا ۔کچھ شعراء نے اسے ہلا جلا کے دیکھابھی مگر اس کی آنکھیں نشے سے بالکل بند تھیں‘‘
‘بس، بس۔۔بس کریں علی شاہ‘‘۔
’’کیوں! سنو نا اپنے شہر کے بہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہت بڑے شاعر کی روداد‘‘۔
وہ ’’بہت‘‘ پہ زور دے کر بولے۔میں نے گھبرا کے فون آف کر دیا۔
علی شاہ کی عادت تھی کہ وہ جب بھی کسی ادبی تقریب میں شرکت کرتے تو اس کی روداد مجھ سے شیئر کیا کرتے ۔علی شاہ کثیر الا حباب تھے اس لئے ملک کے اکثر ادیبوں کا احوال میرے علم میں رہتا۔
یہ 2009 کا زمانہ تھاجب سہ ماہی ’’تمام‘‘ ریلیز ہوا ۔ مجھے اپنے ہی شہر کی ایک رائیٹر کا فون نمبر درکار تھا۔
’’مجھے۔۔۔کا نمبر چاہیئے‘‘۔میں نے علی شاہ کو کال کی۔
’’آپ اپنے ہی شہر کی لکھاری کا نمبر بھکرکے رائیٹر سے پوچھ رہی ہیں؟‘‘وہ حیران ہوئے۔
’’جی! مجھے بتایا گیا ہے کہ آ پ کے پاس ملک کی تمام خواتین رائیٹرز کے نمبر مل سکتے ہیں‘‘۔وہ ہنسے اور شرمندہ بھی ہوئے۔
’’میں بھی میانوالی کا ہوں۔ میانوالی سے ہی ہجرت کر کے بھکر کو گیا ہوں۔مجھے آپکے جریدہ’’تمام‘‘ کی اشاعت کا علم ہوا توبڑی خوشگوار حیرت ہوئی کہ میانوالی میں بھی خواتین قلمکارموجود ہیں‘‘۔یہ تھامیرا علی شاہ سے پہلا رابطہ۔
سہ ماہی’’تمام‘‘ کا آغاز ہوا تو انھوں نے ’’تمام‘‘ کے لئے خوب لکھا اور اسے اپنے حلقے میں بھی متعارف کرایا۔یہ وہ زمانہ تھا جب میں اپنے ہی شہر کے بیشتر لکھاریوں سے ناواقف تھی۔وہ مقامی و قومی سطح کے لکھاریوں کا تعارف کراتے اور ان کے ساتھ گزرے لمحوں کی رودادیں بھی سناتے۔ اک بار میں نے ایک شاعر کی تعریف کر دی ۔وہ آگ بگولہ ہوگئے۔
’’پتہ ہے یہ شخص پہلے نوجوانوں کے لئے جنگ سنڈے میگزین میں معمے لکھتا تھا جو انعامی نہیں ہوتے تھے پھر اس نے غزل کہنی شروع کر دی۔ یہ ہر غزل میں وہی بات کہتا ہے جو اپنی پچھلی غزل میں کہہ چکا ہوتا ہے تاکہ ذہن نشین ہو جائے‘‘۔میں ہنس رہی ۔وہ لمحے جو ان سے باتیں کرتے گزرے اب اذیت بن کر آنکھوں میں مجسم ہو گئے ہیں۔انکی سرگرمی ان کی تگ و دو کو دیکھ کر بھلا کون سوچ سکتاتھا کہ یہ شخص ہم سے اتنی جلدی جدا ہو جائے گا۔
زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے
فکرِانساں زندگی اور موت کے ان سربستہ رازوں کے فہم سے قاصر ہے۔بچھڑنے والوں کی یادیں دلوں کودرد سے آباد رکھنے کا وسیلہ بن جاتی ہیں۔
علی شاہ ایک باکمال ادیب و شاعر،لازوال تخلیق کار،بے مثال دانشور،نابغہ ء روزگار نقاد رہے۔وہ ایک بے باک صحافی کے ساتھ ساتھ شاندار مقرر اور اعلیٰ درجے کے منتظم بھی تھے۔انکی شناخت صرف ایک صحافی کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک تعلیمی اورسماجی خدمت گار کی بھی تھی۔ان کا تخلیقی سفر’’نومی کی شرارتیں(بچوں کی کہانیاں) سے شروع ہوا جوزرد پتے(معاشرتی افسانچے)،بارش مجھ کو راس نہیں(اردو شعری مجموعہ)،دھرتی کے رنگ(کالم،خاکے)،محبت تھی گئی اے(سرائیکی گیت،دوہڑے)،تیکوں ملن دی سک اے(مرتبہ،تحقیق)،اجلے رنگ محبت کے(اردو شعری مجموعہ)، ثنائے سبطِ رسولﷺ(مرتبہ،تحقیق)، ادبی منظر نامہ(تھل کے ادب پر تحقیق)،ماں۔۔میں اکیلا ہوں(ماں کی سوانح حیات)، بھکر میں صحافت کا ارتقا(تحقیق)زیر طبع، ونگ دا وین(مرتبہ، تحقیق)،خودنوشت(اپنے حالات زندگی پر کتاب)پر محیط ہے۔
ایک بار انھوں نے میانوالی کے مقامی رائیٹر کا ذکر کیا۔ ان کے اشتیاق کو دیکھتے ہوئے میں نے رائیٹر کی کتاب ان کو بھیج دی۔ کچھ دن گزرے تو میں نے پوچھا
’’ علی شاہ!کتاب پڑھی؟ بولے’’اتنا ضخیم ناول!!! یہ چھپوانے سے تو بہتر تھا ۔۔۔اپنی بیوی کو فریج خرید کر دے دیتے‘‘۔
مری میں علی شاہ کے اعزاز میں ایک شام کا انعقاد کیا گیا۔
فرحت پروین (افسانہ نگارہ)پاکستان آئیں تو بھکر میں علی شاہ نے ان کے لئے شاندار پروگرام منعقد کیا۔ سالانہ مشاعرے ، شریف اکیڈمی جرمنی کی سالگرہ کی تقریب درجنوں یادگار پروگرام ان کے کریڈٹ پر ہیں۔
’’میں آپ کے شہر میں ہوں‘‘ایک روز اُن کی کال آئی۔’’خوش آمدید! میں اگر لاہور میں کسی سادات فیملی سے ہوتی تو خود آکر آپ کوریسیو کرتی اور’’فورٹریس‘‘ سے چائے بھی پلاتی‘‘میں نے شرارتا ’’ضرب‘‘ لگائی۔وہ ہنسے۔کئی دن سے وہ لاہور کی ایک شاعرہ کے قصے سناتے چلے آ رہے تھے۔جس نے انھیں فورٹریس سے چائے پلائی تھی اور جس کا ذائقہ ان کی زباں سے جاتا ہی نہ تھا۔
علی شاہ کو ہم آپ بھول سکتے ہیں مگر یہ پاک سر زمیں ان کو کبھی نظر انداز نہ کرے گی جس کے سینے پر ان کی تخلیقی کوششوں کے پھول کھلے ہیں۔تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی۔دلوں کو مرکزِ مہر ووفا کرنے والے اس لافانی تخلیق کار کا نام لوح جہاں پر تاابد ثبت رہے گا۔
علی شاہ اب ہم میں نہیں رہے مگرفضاؤں میں بکھری ان کی عطر بیز یادیں قریہ جاں کو مہکاتی رہیں گی۔

اپنا تبصرہ لکھیں