عظیم الشان اسلامی مملکت ترکی میں چند یادگارشب و روز

سفر نگار فرح طیب

ترکی کے چپے چپے پر آغاجان کی یادیں نقش ہیں ۔ان سے ہم نے اپنے سلجوق قبیلے،بدیع الزمان نورسی،عدنان مندریس ،نجم الدین اربکان اور پھر ایردوان کی داستانیں سنیں اور ترکی سے تعلق ایسا بنا کہ ہمیں یہ اپنا دوسرا گھر معلوم ہوتا ہے۔میں اس دفعہ اپنی ایک دوست ڈاکٹر سیوگی کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لئیے آئ تھی ۔انکے شوہر ڈاکٹر نعمان قرطمش سابق نائب وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔بہت خوبصورت اتفاق ہوا کہ اس شادی میں ڈاکٹر سیوگی نےمحترم رجب طیب اردغان اور انکی اہلئیہ امیینے ایردووان سے ملاقات کرا دی اور انکے عملے نے اگلے دن صدارتی تقریب میں شرکت کی دعوت دی ۔بہت تاریخی موقع تھا ۔پوری دنیا سے بہت اہم مہمانوں نے شرکت کی۔مجھے بھی اپنے محترم صدر ممنون حسین صاحب نے بہت شفقت دی اور مجھے بہت اچھا لگا جب انھوں نے اپنی نشست سے اٹھ کر کہا کہ آپ ادھر بیٹھ جائیں ۔میں شکریہ ادا کرتے ہوۓ بیگم صاحبہ کے ساتھ کھڑی ہو گئ۔میرے ترک میزبان وصال اپیکچی نے مجھے تحریک نہضت کے سربراہ استاد راشد الغنوشی سے جب متعارف کرایا تو وہ آغاجان کو یاد کر کے آبدیدہ ہو گۓ کہ اسلامی تحریکوں کو قاضی حسین احمد کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔صدر ایردوان کی تقریب میں عثمانی شان وشوکت اور روایات کی جھلک نظر آرہی تھی۔انکی بیٹی سمیہ ایردووان سے بھی ملاقات ہوئ۔اسی دن کراچی یونیورسٹی سے گریجویٹ ہونے والے علی شاہین بھائ نے ترک پارلیمنٹ کا دورہ کرایا۔روضہ قواچی سے ملاقات کروائ جو مروہ قواچی کی بہن ہیں اور AK پارٹی کی نائب صدر بھی۔استنبول اور انقرہ میں AK پارٹی کے دفاتر میں انکے مضبوط نظام حکومت اور منظم تنظیم کے بارے معلومات حاصل کیں۔سلطان احمد میں خوبصورت نیلی مسجد میں چار گھنٹے گزارے اور اپنی عظمت رفتہ کی بازیابی کے لئیے دعا کر رہی تھی کی فیس بک نے آغاجان کی پرانی تصویریں لا کر سامنے رکھ دیں
رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا?
ترکی جانے سے پہلے محترم امیر جماعت سے اجازت لی تو انھوں نے ساتھ ہی ہدائیت کی میری مبارکباد کا خط بھی لے جانا۔میں نے وہ پارلیمنٹ میں پہنچا دیا۔بہت خوبصورت یادوں کے ساتھ مرمرہ کے کنارے یہ دو سطریں لکھ رہی ہوں

اپنا تبصرہ لکھیں