عصمت دری کے واقعات اورآج کے نوجوانوں کی فکر

لمحۂ فکریہ

: آخر ہم کیا سیکھ رہے ہیں؟
——تبسم فاطمہ
عصمت دری کے ہزاروں بڑھتے واقعات کے درمیان ذرا تصور کیجئے اس 15 سے 20 سال کے نوجوان کا، جو اپنے ٹی وی سیٹ کے آگے بیٹھا ہوا اس خبر کا حصہ بن رہا ہے۔ کیا وہ خوف زدہ ہے؟ کیا اسے ایسے واقعات سے نفرت ہو رہی ہے؟ کیا وہ سچ مچ عصمت دری کرنے والوں کے خلاف ہے؟ یا وہ ایسے واقعات کا ذائقہ لے رہا ہے؟
وقت عصمت دری کی ان سچائیوں پر غور کرنے کا ہے، جسے ہم نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ ایک غیر ملکی سروے کہتا ہے کہ آج کے نئے نوجوانوں میں ‘سیڈزم’ ایک بیماری بن کر تیزی سے ابھر کر سامنے آئی ہے۔ اپنی گرل فرینڈ کی فحش تصویرکھینچنا، ایم ایم ایس بنانا، بلیک میل کرنا، انہیں سیکس کرنے پر اکسانا جیسے واقعات آج بڑے شہروں سے چھوٹے شہر اور گاؤں تک پھیلتے جا رہے ہیں۔ اس فکر نے جہاں نوجوان لڑکوں کو ایک ویلین میں تبدیل کر دیا ہے، وہیں نوجوان لڑکیوں میں مسلسل یہ خوف بیٹھا جا رہا ہے کہ وہ کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ نہ گھر نہ اسکول، کالج اور نہ ہی دفتر میں۔ جیوتی ریپ کیس پر واویلا تو مچا لیکن نتیجہ صفر رہا۔ مورچہ نوجوانوں نے بھی سنبھالا۔ ان میں لڑکے بھی تھے۔ اور لڑکیاں بھی۔ لیکن جیوتی سانحہ کے بعد بھی ریپ یا عصمت دری کے معاملے کم نہیں ہوئے۔ بلکہ دیکھا جائے تو بڑھتے ہی گئے۔ اخبارات اور میڈیا کی طرف سے بھی اگر دیکھا جائے تو ایسی خبروں کو ذائقہ کی طرح پروسا جاتا ہے اور اس سے میڈیا کی ٹی آر پی بھی بڑھتی ہے۔ لیکن اس طرح کی عصمت دری کے واقعات پر محدود فکر اور محدود قانونی اور سماجی لغات سے نکلے ہوئے الفاظ کی جگہ اکثر میڈیا چٹخارے لے کر نوجوانوں کو اندیکھے ذائقے اورذہنی بیماری سے دوچار کرتا جا رہا ہے۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ ظالم شخص در اصل ظلم کے چٹخارے میں جکڑا ہوتا ہے۔ چنگیز سے ہٹلر اور جدید ترین ہتھیاروں اور بلاتکاریوں کی کہانی دیکھیں تو اس مثال کی توثیق ہو جاتی ہے۔ جیسے ابھی حال ہی میں آسٹریلیا کے باشندے، ایک سیریل کلر نے کہا کہ اسے بچوں کو مار کر خوشی ہوتی ہے۔ کچھ ایسے بھی شکاری سامنے آئے جنہیں نوجوان لڑکیوں کی جگہ بوڑھی عورتوں کی عصمت دری کرنا پسند تھا۔ مشہور نٹھاری حادثہ کے قاتل کولی کی ہی مثال لیں۔ انسانیت کو شرمسار کرنے والی ہلاکتوں کے ظالم کولی کو بچوں کی عصمت دری، پھر ان کے قتل کرنے میں مزا آتا تھا۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے بچوں کو قتل، عصمت دری جیسے غیر انسانی واقعات کی آڑ میں ان کے معصوم ذہن میں کیا بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں—؟ ابھی حال ہی میں ایک 18 سالہ مجرم نے کہا، اسے سنیما دیکھ کر عصمت دری کا خیال آیا۔ کیا ایسی خبروں اور میڈیا کے حوالے سے ہم اپنے نوجوانوں کو سیڈسٹ بنا رہے ہیں؟ یہ ضرور یاد رکھئے کہ تربیت کا وہ زمانہ جا چکا ہے جب بچے والدین کے محتاج ہوتے تھے۔ آج کے موبائل، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر اور سائبر دنیا میں زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پاتے۔ بچے شروع سے بند کمروں میں موبائل یا لیپ ٹاپ پر وہ سب کچھ ننھی اور چھوٹی عمر میں دیکھ چکے ہوتے ہیں، جو ان کے دماغ کا بلڈ پریشر بڑھانے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہاں اخلاقیات کی تمام حدود کافی پہلے ہی ٹوٹ بکھر کر ختم ہو چکی ہیں۔ اسکول اور کالج میں بھی آداب اور اخلاقیات کی جگہ ذائقہ نے لے لیا ہے۔ رہی سہی کسر میڈیا اور فلم نے پوری کر دی ہے۔ نوجوان ذہن کے ساتھ اس طرح کے واقعات کی زد میں اب گھر بھی آ چکا ہے۔
ہندوستان میں عصمت دری کے شکار ہر تین لوگوں میں ایک بچہ ہے۔ 12 سال سے کم عمر کے 10 فیصد بچے اپنے سگے رشتے داروں کی طرف سے عصمت دری کا شکار ہوتے ہیں۔ 2 سے 10 سال کے بچوں کا جسمانی استحصال بھی خاندان والوں نے ہی کیا ہوتا ہے۔ 2000 سے 2014 کے درمیان چائلڈہوڈ سکسول ایبوز کے واقعات نے ہندوستان کو بین الاقوامی فریم میں لا دیا ہے۔
وقت یہ بھی سمجھنے کا ہے کہ یہ وہ بچے نہیں ہیں، جو کل تک بچپن کے کھیل اور کھٹیـمیٹھی شرارتوں کے ساتھ ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ بدلے ہوئے وقت میں عصمت دری اور بے رحم واقعات کی تاریخ نے ان کے پورے ذہن کو متاثر کیا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہم کب تک آنکھیں موند کر اس سماج کا حصہ رہیں گے، جہاں 12 سے 15 سال کے لڑکے بھی عصمت دری کے مجرم بن جاتے ہیں۔ ‘بال سدھار گرہ’ جیسے دروازے بھی ان کی ذہنیت کو تبدیل کرنے میں ناکام ہیں۔
سوال یہ ہے ہم کہاں جا رہے ہیں—؟ کیا اس سے بچا جا سکتا ہے—؟ کیا عصمت دری کی روک تھام آج کے دور میں ممکن ہے؟ اور اس سے بڑا سوال ہے کہ پاپ کارن، آئس کریم اور چاکلیٹ کھاتے بچوں کو اگر ہم نشے کی طرح پارن، انسیسٹ اور عصمت دری کے واقعات کا ذائقہ چکھا رہے ہیں تو اس کا انجام کیا ہوگا—؟
tabassumfatima2020@gmail.com
Mob:995858388

4 تبصرے ”عصمت دری کے واقعات اورآج کے نوجوانوں کی فکر

  1. bht khubsurat andaaz mein intehaee hassas points ki taraf ishara kya hai, gaur se parhne ki zarurat hai

    Welldone Tabassum Fatima

    1. سوال یہ ہے ہم کہاں جا رہے ہیں—؟ کیا اس سے بچا جا سکتا ہے—؟ کیا عصمت دری کی روک تھام آج کے دور میں ممکن ہے؟ اور اس سے بڑا سوال ہے کہ پاپ کارن، آئس کریم اور چاکلیٹ کھاتے بچوں کو اگر ہم نشے کی طرح پارن، انسیسٹ اور عصمت دری کے واقعات کا ذائقہ چکھا رہے ہیں تو اس کا انجام کیا ہوگا—؟

      کامران صاحب آپ درست کہتے ہیں تبسم صاحبہ نے بہت ہی حساس موضوع پر نہ صرف قل اٹھایا ہے بلکہ بڑی چابکدستی سے اس کے تمام پہلوئوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ایسے موضوعات پر تو مرد بھی لکھنے کی جرآت نہیں کرتے ۔پھر ان کی لکھی ہوئی آخری سطریں بہت متاثر کن ہیں۔

  2. Agar hum apni khuwahishaat ko lagaam dein Islami ahkaam ki pabandi karein apne bachon ke lye role model ban jaein (jo ke aaj bhi mumkin hai) to bahar haal in waqiat se bacha ja sakta hai

  3. موجودہ دور میں معاشرہ جس تیز رفتاری سے تنزل کا شکار ہو رہا ہے اس کی بنیادی وجہ جدید سائنسی ایجادات کا غلط استعمال ہے۔ ٹی وی ، انٹرنیٹ اور موبائل کا غلط استعمال جراءم میں اضافے کا باعث ہے۔ ہم نے اس مفروضے کی بنیاد پہ یہ چیزیں بچوں کہ ھوالے کر دی ہیں کہ ان چیزون میں برائی نہیں ہے بلکہ ان کا استعمال اچھا یا برا ہے۔ ہم نے اس حقیقت سے پہلو تہی کی ہے کہ ان جدید سہولیات کے پیچھے ذہن کس کا کارفرما ہے۔ کیا انٹرنیٹ ٹی وی اورموبائل پہ اآپ کا کنٹرول ہے یا وہ اپنی مرضی کے پروگرامات آپ تک پہنچاتے ہیں؟ آپ کا اختیار تو محض اتنا ہے کہ آپ وہ پروگرامات نہ دیکھیں۔اب بچے کو کیا معلوم کہ کیا دیکھنا ہے اور کیا نہیں۔ وہ سب کچھ دیکھتا ہے اور اچھائی کی غیر موجودگی میں برائی دیکھ کر وہ برائی پہ ہی آمادہ و تیار ہوتا ہے۔ بچوں کی تربیت کے لیے لازم ہے کہ ماں باپ خصوصی طور پہ بچے کو وقت دیں اور اس کی اصلاح اور تربیت کرتے رہیں۔ اخلاقیات سے بچے کو مسلح کریں ۔ اگر سب لوگ اس طرح بچوں پہ توجہ دیں تو کسی ھد تک مسائل پہ قابو پایا جا سکتا ہے
    اسی طرح اگر حکومتی سطح پہ اقدامات کرتے ہوئے ان پروگرامات کو بند کیا جا سکے تو حالات سدھر سکتے ہیں۔ ہم جب بچے تھے تو اساتذہ ہمیں ویڈیو گیم کھیلنے سے منع کرتے تھے لیکن اب اساتذہ والدین کو مشورہ دے رہے ہوتے ہین کہ بچے کو ویڈیو گیم لے دیں اس سے انکا ذہن تیز ہوتا ہے ۔ یہ تیزی ہی انہیں لے ڈوبتی ہے کیونکہ یہ گیمز انکو اخلاق باختہ کر دیتی ہیں ۔ اللہ ہمارے حال پہ رحم فرمائے آمین۔

    راجہ محمد عتیق افسر

اپنا تبصرہ لکھیں