صاحب تو گھر پر نہیں ہیں ۔

 گل بخشالوی gul
الیکشن کا دور بھی کیا خوب تھا اُمیدواروں کے دفاتر میں 
چائے،کھانا ،تکے ،مرغ مسلم اور سجیوں پر سپورٹرز ہاتھ صاف کرتے رہے اُمیدواروں کی جیت اخبارات کے شہ سُرخیوں میں آسمان پر لکھی جاچکی تھی مساجد پانچ وقت آباد تھیں مذہبی محافل میں اُمیدوار مومن تھے احمد دین مسلی ،تاجو مہاجر ،مکھن تیلی ،خاشو کمہار کے جنازوں کی پہلی صف میں شہر کے رئیسوں کو بڑی تعداد میں دیکھا تو مولوی وارث سے کہا حافظ صاحب گمنام دفن ہونے سے بہتر ہے دعا کرو آج ہی مرجاﺅں جنازہ تو بڑا ہوگا ۔اُمیدواروں کے چہروں پر مسکراہٹیں کھیل رہی تھیں فقیروں کو گلے لگاتے پھرتے رہے ،رات کو گلیاں آباد تھیں جن گلیوں سے گلی کے مکینوں کا گذرنا مشکل تھا اُن گلیوں میں چوہدری صاحبان کی تشریف آوری سے نیندیں حرام تھیں ۔بیماروں کی بیمار پرسی ہورہی تھی ۔ادویات کےلئے رقم مل رہی تھی ۔غریب قابل صد احترام تھا ۔باﺅ گلاب گھگڑاداڑھی کو تیل لگاتے چوہدری صاحب کیساتھ کرسی پر بیٹھا جھوم رہا تھا ایک سے وعدہ کیا دوسرے کیساتھ تصویربنائی جس نے رقم لگائی اُس کے گیت گائے ۔
بازاروں اور گلیوں میں فلیکس ،پوسٹرز اور بینروں پر اخبارات میں اشتہارات پر اُن لوگوں نے لاکھوں اُڑائے جو تمام زندگی میں پڑوس میں غریب بیمار کو 10روپے دینا اپنی امارت کی توہین سمجھتے تھے ۔اور پھر ہوا الیکشن کوئی ہار ا کوئی جیتا ،دونوں معاشرتی منظر سے غائب ایک جیت کی خوشی میں اور دوسرا ہار کے غم میں ماتم کیلئے اپنے گریبان میں نہ دیکھا کہ کیوں ہارا ۔الزام لگا ووٹروں پر سپورٹروں پر کیوں ہار ادھاندلی ہوگئی ،سب کچھ ختم ہوگیا ،مساجد ویران عزیز مہاجر کے جنازہ میں اُس کے چند عزیز گلیاں سنسان ہوگئیں اور ووٹر سکون کی نیند سوگئے ۔شیدانائی کی والدہ بیمار ہوئی صبح سویرے منتخب کونسلر کا دروزاہ کھٹکھٹایا ملازم باہر آیا اور کہاصاحب تو گھر پر نہیں ہیں ۔
٭٭٭
اپنا تبصرہ لکھیں