سگے والدین پر اپنے بچوں کے اغواء کا الزام

تحریر شازیہ عندلیب
گذشتہ دنوں ایک روسی جوڑے نے اپنی ہی دو بچیاں اسکول کے راستے سے اغواء کر لیں۔اب نارویجن پولیس انکی تلاش میں سرگرداں ہے۔اس مقصد کے لیے پولیس نے زمینی ،ہوائی اور بحری راستوں پر ناکے لگا رکھے ہیں اور تمام سیکورٹی محکموں کو خبر کر دی ہے کہ یہ بچیاں ناروے کی حدود پار نہ کرنے پائیں۔اس قدر انتظامات کے باوجود بھی پولیس بچیوں کو تلاش کرنے میں ناکام رہی۔البتہ بچیوں کے اغواء میں معاونت کرنے والا ایک شخص ان کے ہاتھ لگا ہے جسے پولیس سزاء دینے کا سوچ رہی ہے۔
آٹھ اور چھ سال کی یہ دو بچیاں ادارہء تحفظ اطفال کے محکمے نے والدین کے ناروا سلو کی وجہ سے اپنی تحویل میں لے لیں تھیں۔اس کے بعد انہیں منہ بولے والدین کے حوالے کر دیا گیا تاکہ وہ انکی صحیح طریقے سے پرورش کر یں۔ایسے بچوں کو عموماً سگے والدین سے دور نا معلوم مقام پر رکھا جاتا ہے ۔خاص طور سے جو والدین کے تشدد یا مار پیٹ کا نشانہ بن چکے ہوں۔ناروے میں بچوں کو اسکولوں میں اور گھروں میں مار پیٹ اور تشدد پر پابندی ہے یہ ایک قابل سزا جرم ہے۔ناروے میں آج سے پچاس برس قبل تک اسکولوں میں بچوں کو چھڑی سے پیٹا جاتا تھا۔لیکن بعد میں اس مار پیٹ پر پابندی لگ گئی حتیٰ کہ والدین بھی بچوں کو مار پیٹ نہیں کر سکتے۔یہ تمام قوانین اور اصلاحات معاشی خوشحالی کے بعد نافذ ہوئیں۔جس کی وجہ سے یہ ایک آزاد اور کامیاب معاشرہ نظر آتا ہے گو کہ جرائم اور خامیاں ہیں تو سہی مگر بہت کم آٹے میں نمک کے برابر جیسے ہمارے معاشرے میں اچھائیاں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔دنیا کے تمام پسماندہ اور غریب ممالک میں آج بھی والدین اور اساتذہ بچوں کی تربیت میں مار پیٹ اور ٹھکائی دھنائی سے کام لیتے ہیں۔
ناروے میںنہ صرف بچوں کی مار پیٹ پر پابندی ہے بلکہ مجرموں کو بھی سخت سزائیں دینے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔انہیں جیلوں میں تمام سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔بلکہ ہر مجرم کے پاس ایک رہائش ہوتی ہے اسی لیے تو برطانیہ نے ناروے سے جیلیں کرائے پر مانگ لی تھیں۔کیونکہ ان کے ہاں رہائشوں کی کمی ہو گئی تھی۔نارویجن حکام اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مجرموں کو سخت سزائیںدینے کے بجائے انہیں اخلاقی تربیت دی جائے تاکہ وہ برے کاموں سے بچیں اور جرائم نہ کریں۔اس مقصد کے لیے جیل کے حکام نے جیلوں میں تبلیغ کا بندوبست بھی کیا تھا تاکہ مجرم نیکی اور بھلائی کی طرف مائل ہو کر جرائم سے تو بہ کر لیں یہ ہے اس قوم کی سوچ کی بلندی اور گہرائی۔ایک ہم ہیں کہ اس قدر قیمتی ضابطہء حیات کے امانت دار ہوتے ہوئے بھی ہماری قوم برائیوں کی وجہ سے تباہیوں کے دہانے پہ کھڑی ہے۔
بات ہو رہی تھی بچوں کے تحفظ کی۔عام طور سے محکمہء تحفظ اطفال کا ادارہ بچوں کی صحیح دیکھ بھال نہ کرنے کی صورت میںیا بچے کی نفسیاتی و جسمانی صحت کے خطرے کی صورت میں فوری طور پر بچوں کو تحویل میں لے لیتا ہے۔ایسا اکثر تارکین وطن کے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے۔جو یہ قانون نہیں جانتے کہ اس دارے کو لازمی بچہ تحویل میں لینے سے پہلے والدین کو وارننگ دینی چاہیے جو ادارہ اکثر نہیں دیتا۔اس کے علاوہ والدین کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتاکہ وہ ادارہ کے بچہ تحویل میں لینے کے تین ماہ کے اندر اندر اپیل کر کے اپنا بچہ واپس لے سکتے ہیںاگر وہ حق پر ہیں تو۔اس کے علاوہ اگر ادارہء تحفظ اطفال میں بچے کی تربیت نارویجن اسٹینڈرڈ کے مطابق نہ ہو رہی ہو والدین تب بھی بچہ واپس لے سکتے ہیں۔
نارویجن ادارہء تحفظ اطفال ناروے میں پلنے والے بچوں کی تربیت پر گہری اور کڑی نظر رکھتا ہے۔یہاںپلنے والا ہر بچہ صرف والدین ہی کی نہیں بلکہ حکومت کی بھی ملکیت ہے۔یہاں کی حکومت پیدا ہونے سے لے کر بوڑھے ہونے تک اس بچے کی ذمہ داری اٹھاتی ہے۔بلکہ اسے ہاتھ کا چھالہ بنا کے رکھتی ہے۔یہاں جو بچہ پیدا ہوتا ہے اسکی ماں کو پینتیس سے چالیس ہزار کرائون کے لگ بھگ رقم اسکے اکائونٹ میں بھیجی جاتی ہے پھر اٹھارہ سال تک ماہانہ ہزار کرائون کے لگ بھگ بچے کے لیے ماں کو خرچہ دیا جاتا ہے۔پھر اس کی تعلیم ،صحت شادی دکھ بیماری ملازمت ہر پہلو اور موقعہ پر مدد و رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔نارویجن شہری کی شادی کی صورت میں اسے گھر فراہم کیا جاتا ہے۔اگر نا چاقی ہو گئی تو بھی اخلاقی مدد فراہم کی جاتی ہے کہ پچھلی بیوی کے بچوں کو خرچہ ملے اور اگر وہ عورت تنہا ہے تو اسے فالتو خرچہ دیا جاتا ہے اگر پھر شادی کرنا چاہتی ہے تو اسکی ہر طرح سے مدد کی جاتی ہے۔اسی طرح مردوںکی بھی مدد کی جاتی ہے۔یہ کام فیملی ہائوس کا محکمہ کرتا ہے۔

محکمہء تحفظ اطفال صحت کے اداروں اور اسکولوں سے بچوں کی تربیت کی سن گن لیتا رہتا ہے جیسے ہی کوئی ٹیچر یا ڈاکٹر کسی بچے کی تربیت میں کوئی گڑ بڑ دیکھتے ہیں یہ محکمہ بچہ لینے پہنچ جاتا ہے۔گویا یہ محکمہ بچے کی حفاظت ایسے کرتا ہے جیسے خطرے کی صورت میں چیل جو اپنا بچہ جھپٹ کر لے جاتی ہے۔نارویجن حکومت کو والدین کا بچوں کو مارنا پیٹنا قطعاً پسند نہیں۔ بچوں کے تحفظ کا محکمہ ایسے والدین سے بچے لے کر کسی اہل خاندان کے حوالے کر دیتا ہے جو ان کے معیار پر پورے اترتا ہے۔محکمہ کا معیار سخت ہے۔بوڑھے بیمار اور کم آمدن والے والدین بچہ گود نہیں لے سکتے۔مگربعض اوقات غلط فہمی کی بناء پر بھی والدین بچہ کھو دیتے ہیں۔یہ محکمہ بعض اوقات بہت جذباتی ہوجاتا ہے اور غلط شکایا ت یا محض شک کی بناء پربھی بچہ تحویل میں لینے جیسے انتہائی قدم اٹھا لیتا ہے اور بے قصور والدین اپنے لخت جگر سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔بیشترصورتوں میں ایک بچے سے ناروا سلوک کی شکل میں والدین کو تمام نا بالغ بچوں سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔مگر ایسے کیسز کی تعداد بہت کم ہے۔ناروے کے اس محکمے پر بعض حلقوں کی جانب سے سخت تنقید کی جاتی ہے ۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ ناروے نہ صرف ماں اور بچے کے تحفظ کا بہترین ملک ہے بلکہ اب سے ماں اور بچے کے لیے تیسرے نمبر کا بہترین ملک قرار دیاجا چکا ہے۔نارویجن حکومت اپنی چھوٹی سی سلطنت میں پید ہ ہو نے والے ہر بچے کا خیال بعض صورتوں میں ماں سے بھی ذیادہ رکھتی ہے۔ہمارے ہاں پنجابی کی ایک مثل ہے کہ جو ماں سے بھی ذیادہ بچے کو چاہے وہ پھاپھا کٹنی کہلائے۔لیکن دوسری جانب ہمارے اپنے وطن میں دیکھا جائے تو والدین اپنے ہی بچوں سے جس قدر ناروا اور ہتک آمیز ظالمانہ سلوک کر رہے ہیں اسکی مثال اس ترقی یافتہ دور میں ملنی مشکل ہے۔
ان دو بچیوں کے بارے میں پولیس نے یہ شک ظاہر کیا کہ انہیں ان کے والدین نے روس بھجوا دیا ہے۔اس لیے انکی بازیافت کے لیے روسی حکام سے رابطہ کیا تو انہوں نے نارویجن پولیس کو ٹکّا سا جواب دیا اور ترنت بچیاں واپس کرنے سے انکار کر دیا۔تاہم ادارے کے اہلکار بھی بڑ بڑا رہے تھے کہ چونکہ بچیاں نارویجن نیشنلٹی کی حامل ہیں لہٰذا انکی پر ورش نارویجن ادارے کی ذمہ داری ہے ویسے بھی ادارہء تحفظ اطفال کا ادارہ ایک بچے کی پر ورش پر سالانہ ایک ملین کرائون خرچ کرتا ہے۔جس میں سے ڈھائی لاکھ کرائون سالانہ تو منہ بولے والدین کو ہی دے دیے جاتے ہیں۔جبکہ باقی دیکھ بھال کا عملہ جو اس بچے کی ہر قسم کی نگرانی والدین سے میٹنگ،اصل والدین سے ملاقات اور دیگر معاملات پر مامور ہوتے ہیں ان پر اٹھ جاتے ہیں۔اس طرح ادارے میں ایک بچے کی پر ورش سے کئی لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔اس لحاظ سے ان دو بچیوں کے ملک سے چلے جانے سے نہ صرف منہ بولے والدین کا نقصان ہوا بلکہ ادارے کو دو ملین کرائون سالانہ کا نقصان بھی اٹھانا پڑا۔
تازہ ترین صورتحال کے مطابق نارویجن حکام نے ان منہ بولی بچیوں کے والدین کو نا اہل قرار دے دیا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ روس ان بچیوں کو واپس دے اور انہیں ان کے اصل والدین کے حوالے کیا جائے گا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ روسی حکام اس نئے فیصلے کی روشنی میں بچیوں کو واپس کرتے ہیں یا نہیں؟؟
نارویجن افراد کی آبادی اس قدر کم ہے کہ اگر غیر نارویجن ملک چھوڑ جائیں تو آدھا ناروے خالی ہو جائے۔ایسے میں ادارہ تحفظ اطفال میں پلنے والے بچے کسی نعمت سے کم نہیں کہ وہ نہ صرف حکومت کی مستقبل کی افرادی قوت بلکہ مالی قوت بھی میں بھی معاون ہیں۔
پچھلے برس اسی ادارے نے ایک انڈین جوڑے کے بچے بھی معمولی سی بات پر قبضے میں کر لیے تھے۔بات یہ تھی کہ پڑوسیوں نے ادارے کو شکائیت لگا دی کہ ایک انڈین جوڑا اپنے نو مولود اور نو نہال بچوں کو اپنے ساتھ سلاتا ہے اور اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتا ہے۔اس بات پر وہ طوفان کھڑا ہوا کہ بات سرکاری وکیلوں سے ہوتی ہوئی دونوں ممالک کی سرکاروں تک جا پہنچی۔دونوں ممالک کے وکلاء اور وزراء نے بات چیت کے ذریعے معاملہ طے کیا فیصلہ یہ ہوا کہ بچے ا نکے نا اہل والدین کو واپس نہیں کیے جائیں گے بلکہ انڈیا میں ان کے نانا نانی کو دیے جائیں گے۔چنانچہ اس فیصلے کے بعد وہ انڈین جوڑا بھی انڈیا شفٹ ہو گیا۔اب آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ وہ بچے اصل میں کس کے پاس ہوں گے؟؟خیر ناروے اور روس کے درمیان بچیوں کا معاملہ ابھی تک فائنل مرحلے میں نہیں پہنچا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ادارہ تحفظ اطفال بچیوں سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے یا انڈین والدین کی طرح روسی والدین بھی روس شفٹ ہو جائیںگے؟؟؟

اپنا تبصرہ لکھیں