سچے اور اچھے لوگاں بھی ہیں صاب

 دیکھنا میری عینک سے

F M SALEEM

بات ان دنوں کی ہے جب میں حیدرآباد کے اردو روزنامہ منصف کے لئے ایک کالم لکھ رہا تھا، ہجوم میں چہرہ۔ کام ذرا سا مشکل تھا۔ بھیڑ میں سے ایسے چہروں کو ڈھونڈ نکالنا تھا، جو بھیڑ سے مختلف ہوں۔ بلکہ کئی تو ایسے تھے، شاید ہی انہوں نے کبھی یہ سوچا ہوگا کہ ان کے بارے میں بھی اخبار میں لکھا جا سکتا ہے، یا ان کی تصویر بھی چھپ سکتی ہے۔ ایسے ہی چہروں میں سے ایک چہرے نے باتوں باتوں میں بڑی دلچسپ بات کہی تھی۔ بات ایک مخصوص پیشے سے منسلک کچھ افراد کی تھی۔ لوگ دھوکہ دے کر پیسے کما رہے تھے اور یہ شخص بھی اسی پیشے سے منسلک تھا، لیکن اس نے اپنی شبیہ پر داغ لگنے نہیں دیا تھا۔ حالانکہ اس نے اپنے بارے میں نہیں بلکہ اپنے جیسے دوسرے لوگوں کے بارے میں کہا تھا …. سچے اور اچھے لوگاں بھی ہیں صاب!

آج دنیا بڑی تیزی سے بدل رہی ہے اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بھروسہ نام کی چیز بھی اتنی ہی تیزی سے دنیا سے اٹھتی جا رہی ہے۔ چاہے وہ کاروبار ہو یا پیشہ، لوگ آسانی سے کسی پر یقین نہیں کر پا رہے ہیں۔ ایسے میں جو اچھے اور سچے لوگ ہیں، ان کی شناخت بحران کا شکار ہے۔ حیدرآباد میں آٹوركشا کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ مقررہ مقام پر چلنے اور مناسب کرایہ لینے کے معاملے میں انہیں منانا مشکل کام ہے۔ بلکہ یہ اپنی من مرضی سے چلتے ہیں، لیکن ان میں بھی کبھی کبھی سچے اور اچھے لوگ مل ہی جاتے ہیں۔ میری ایک جان پہچان کی لیکچرر سنیتا شرما نے ایک دن اسی طرح کا واقعہ سنایا تھا۔ ان دنوں وہ روزانہ آٹوركشا سے کالج آتی تھیں اور آٹوركشا ڈرائیوروں کے رویہ کے بارے میں ان کے اچھے تجربے نہیں تھے۔ لیکن ایک دن وہ بہت خوش تھیں۔ انہیں اچھا آٹوڈرائیور مل گیا تھا۔ جیسے ہی ڈپارٹمنٹ میں آئی انہوں نے بڑی بے صبری سے سارا واقعہ سنایا۔ چلتے وقت ركشاڈرئیور نے 80 روپے مانگے، انہوں نے 60 کہے اور بات 70 روپے میں طے ہوئی۔ راستے میں آٹوركشا ڈرائیور کے ساتھ بات چیت کے دوران کچھ سکھ دکھ کی باتیں بھی ہوئیں اور جب وہ کالج پہنچیں تو پایا کہ کالج کے بچے ہنگامہ کر رہے ہیں۔ ركشاڈرائیور نے ان کے بارے میں جانا کہ وہ انہیں بچوں کو پڑھاتی ہیں، تو اس نے بڑے ہی ہمدردانہ لہجے میں کہا … اماں آپ اتنے شیطان بچوں کو پڑھاتی ہیں، 60 روپے ہی دے دو۔
دراصل بات ایک دوسرے کو سمجھنے کی ہے۔ اتنا تو طے ہے وہ بہت کم لوگ ہوتے ہیں، جو سب کے لئے اچھے ہوتے ہیں، لیکن یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ کوئی شخص ہر ایک کے لئے برا نہیں ہوتا۔ اچھے برے تعلقات ہر جگہ ہوتے ہیں۔ حال ہی میں جب بی این آئی کے ایگزیکٹو ڈائرکٹر بھرت شاہ سے ملاقات ہوئی تو کاروبار میں گاہکوں کو لوٹنے کے چلن پر بھی بات ہوئی۔ ان کی رائے تھی کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو دھوکے سے روپیہ کماتے ہیں۔ وہ کہنے لگے زیادہ روپیہ کمانا جرم نہیں ہے، لیکن کمائی کے لئے کسی کے بھروسے کو ٹھیس پہنچانا ضرور جرم ہے اور ایسی چار پانچ مچھلیاں بھی سارے تالاب کو گندا کرتی ہیں۔ اسی لیے شاید جب لوگ کہیں رہنے بسنے کی سوچتے ہیں تو بازار ہو یا بستی، اس کے اچھے ماحول کے ساتھ ساتھ پاس پڑوسیوں میں بھی اچھائی تلاش کرتے ہیں۔
بھروسہ، سچائی اور نیکی کچھ ایسی چیزیں ہیں، جو مشکل سے کسی کو ملتی ہیں اور اور اس سے بھی مشکل ہے انہیں ان کے دشمنوں، یعنی بیمانی، جھوٹ، کرپشن، دھوکہ دہی اور بد نیتی جیسے لالچی عناصر سے بچائے رکھنا۔ کسی نے شاید سچ ہی کہا تھا، پرانے زمانے میں تمام لوگ اچھے ہی تھے، ایسا نہیں ہے اور نہ ہی ایسا ہے کہ آج کے زمانے میں سارے لوگ برے ہیں، کیوں کہ دنیا اچھے لوگوں سے چلتی ہے صاب

اپنا تبصرہ لکھیں