سورج کی شہ پہ تنکے بھی بے باک ہو گئے

عمر فراہی ۔ ای میل : umarfarrahi@gmail.com

ہجومی ، تشدد ،مسئلہ طلاق ،این آرسی ،کشمیر اور پاکستان کو موضوع بنا کر
مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کیلئےملک میں جو ماحول گرم ہے یہ ماحول آزادی کے بعدکانگریسی حکومتوں کے دور سے ہی منصوبہ بند طریقے سے گرم کیا جاتارہا ہے۔بلکہ یوں کہیں کہ یہ زہر آزادی سے پہلے ہی عصبیت کی شکل میں عام ہندو ذہنوں میں ڈالنے کی شروعات ہو چکی تھی ۔اب اقتدار اور قوت حاصل ہونے کے بعد اس نے عمومی تباہی کے ہتھیار کی شکل اختیار کرلی ہے۔ہمارے بزرگوں اس مرض کی صحیح تشخیص نہ کرپائے ہوں یہ الگ بات ہے ورنہ عصبیت کے اس زہر سے ہندو مجاہدین آزادی بھی پاک نہیں تھے فرق اتنا تھا کہ اس وقت غیرت مند مسلم قیادت موجود تھی اس لئے ارباب اقتدار نے کچھ اصول اور تحمل کا مظاہرہ کیا۔ اب جبکہ عالمی اور قومی سطح پر مسلم قیادت کا بحران ہے تو فسادی ذہنیت بھی بے باک ہو چکی ہے ۔ پروین شاکر نے انہی حالات کی عکاسی کی ہے کہ ؎ لہرا رہی ہے برف کی چادر ہٹا کے گھاس /سورج کی شہہ پہ تنکے بھی بے باک ہو گئے
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب آزادی کے دستاویزات حاصل کرنے کا وقت آیا تو مولاناابوالکلام آزاد سے کانگریس کی صدارت چھین لی گئی ۔آزادی کے فوراً بعد آزاد صاحب کو وزارت تعلیم کا معمولی شعبہ تھما کر یا تو ان کا قد گھٹا دیا گیا یا مسلمانوں کو پیغام دے دیا گیا کہ اب ملک میں تمہاری یہی اوقات ہے ۔ اس ملک کی جمہوری پارلیمنٹ میں کوئی ایک بھی مسلمان وزیر ہے نہیں ہے ! ہاں جب کشمیر کے معاملے میں مسلمانوں کی حمایت کی ضرورت پیش آئی تو محمود مدنی کو جنیوا کی میڈیا کانفرنس کی میز تک پہنچا دیا گیا ۔جب ہم ٹکے پر بکنے اور مطمئن ہونے کیلئے تیار ہیں تو قصور حکومت کا بھی نہیں ہے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے ہوم منسٹر سردار ولبھ بھائی پٹیل نے ملک کی تمام ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو خفیہ خط لکھا کہ مسلمانوں کو اہم عہدے نہ سونپے جائیں ۔باقاعدہ سسٹم کے ذریعے مسلمانوں کے ساتھ ایک طرح کی سلیکٹو سیاست ہوتی رہی تاکہ وہ اپنے جائز مطالبات سے دستبردار ہو کر مدافعت پر مجبور ہو جائیں یا انہیں اپنے مطالبات کی بجائے تحفظ کی فکر لاحق ہونے لگے۔ یہ خوف اور دہشت کا ماحول ہی توتھا کہ مسلمان آزادی کے بعد سے ہی اپنے خلاف اسپین برما جرمنی اور اسرائیل جیسے ہولو کاسٹ کے خوف اور دہشت کی نفسیات میں جیتے رہے ہیں ۔
یہ بھی ہے کہ جن کے پاس نصب العین تھا وہ مسلمانوں کو تباہ کرنے کیلئے اسپین جرمنی اور اسرائیل کا سفر کرتے رہے اور ہمارے لوگ اس بات سے ہی مطمئن رہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو حکومت کیلئے نہیں تبلیغ کیلئے پیدا کیا ہے ۔یہ لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وعظ و نصیحت بحث اور لفاظی ہی تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر کا طریقہ ہے اور دین اسلام اسی طرز تبلیغ سے تمام جنس دین پر غالب آجائےگا ؟سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ جس کے پاس منصوبہ اور نصب العین ہوتا ہے حالات کے تحت اس کی ترجیحات بھی بدلتی ہیں اور وہی سفر بھی کرتے ہیں ۔سفر تو مسلمان بھی مقدس سرزمین مکہ اور خانۂ کعبہ کاکرتا ہے مگر مسلمانوں کی اکثریت حجر اسود کو چومنے کے بعد سوائےآب زم اور کھجور کے اس مقدس سرزمین سےاور کچھ سیکھ ہی نہیں پاتی ؟کتنی عجیب بات ہے نا کہ جن قوموں کے یہاں دین کا تصور فوت ہو چکا ہے ان میں سے ایک نے ہیکل سلیمانی کی برکت سے اسرائیل جیسا طاقتور ملک بنا لیا اور دوسرے نے رام مندر اور ایودھیا کے تصور سے اقتدار حاصل کرلیا ۔
اب موجودہ حکومت بھی خوف اور دہشت کا جو کھیل کھیل رہی ہے یہ بھی چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو قانونی طریقے سے دوسرے درجے کاشہری قرار دینا ممکن نہ بھی ہوتو بھی وہ خود دوسرے درجے کا شہری تصور کرنا شروع کرتے ہوئےسیاست سے دور ہوجائیں یا خوفزدہ ہوکر اپنے تحفظ کیلئےبی جے پی کو ووٹ دینے کی وکالت شروع کردیں ۔2019 میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد سابق راجیہ سبھا ممبر محمد ادیب نے مسلمانوں کو یہی مشورہ دیا کہ وقت آگیا ہے کہ مسلمان سیاست سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر لیں تاکہ بی جے پی ہندوؤں میں مسلمانوں کا خوف بٹھاکر اقتدارحاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ یہ بات کسی کے گمان میں بھی نہ ہو کہ مودی حکومت فی الوقت اسپین اور برما کی طرف نہ دیکھ کر بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کی طرف دیکھ رہی ہے ۔ ملک میں ایک سیاسی پارٹی کی حکومت کیلئے جبر کا یہ ماحول اسی خطوط پر قائم کیا جارہا ہے جیسا کہ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد نے پہلے تو وہاں کی سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کو نظر بند کیا ان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات دائر کرکے پابند سلاسل کرنا شروع کیا اور اپنی طاقتور حریف جماعت اسلامی کے تقریباً دس بااثر شخصیات کو چالیس سال پرانے جھوٹے مقدمات میں سزا دلواکر تختہ دار پر چڑھا دیا ۔اس طرح الیکشن میں کوئی سیاسی پارٹی حسینہ واجد کے خلاف مقابلے کی اہل نہ رہی اور وہ تنہا جمہوری طرز کی ڈکٹیٹر ہیں ۔
ہندوستان میں موجودہ حکومت نہ صرف اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاسی پارٹیوں کے اطراف میں گھیرا تنگ کر چکی ہے مسلمانوں کے خلاف جو رسی کھینچنے کی سازش کی گئی ہے اس کا اثر بھی محمود مدنی جیسے مسلم قائدین کی حرکتوں سے سامنے آنے لگا ہے ۔وہ مسلمانوں کا کوئی بھلا تو کر نہیں سکتے لیکن ان کے منفی بیان سے حکومت انہیں کسی اعزاز سے ضرورنواز سکتی ہے ۔ایک وہ زمانہ تھا جب عرب حکمراں بر صغیر سے مولانا مودودی اور علی میاں ندوی جیسے معززعلمائے دین کو اعزاز سے نوازا کرتےتھے اب یہ اعزاز وزیراعظم نریندر دامودر داس مودی اور حضرت عمران خان کو دیا جارہا ہے ۔ مطلب صاف ہے کہ یا تو علماء بر صغیر کے مقابلے میں سیاستدان زیادہ محترم اور عزیز ہیں یا ہمارے علماء نے اپنا وقار کھو دیا ہے یا عرب حکمرانوں نے اپنی ترجیحات کا قبلہ اور زاویہ بدل دیا ہے۔کچھ بھی ہو مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کئے جانے کا مطلب بالکل صاف ہے کہ علی میاں کے بعد اب مسلمان کسی متقی پرہیزگار اور بااثر عالم دین کی سرپرستی سے محروم ہے۔ممکن ہے مسلمانوں کے زوال اور پسماندگی کی وجہ تعلیم اور ٹکنالوجی ہوسکتی ہے لیکن جب کوئی قوم باشعور اور بے باک قیادت سے سرفراز ہوتی ہے تو غیر متمدن تاتاری بھی متمدن سلطنتوں کے بانی بن جاتے ہیں اور پتھروں کی پوجا کرنے والے اہل کتاب پر غالب آجاتے ہیں ۔آپ لاکھ تعلیم یافتہ اور ذہین ہو جائیں آپ کا قبلہ ہی درست نہیں تو آپ انہیں کیلئےاستعمال ہوتے رہیں گے جن کے ہاتھ میں آپ کی باگ ڈور ہے ۔یقین نہ آئے تو یوروپ کے ریسرچ سینٹروں کا جائزہ لیجئے جہاں دنیا کے ذہین اور تعلیم یافتہ نوجوان اپنی صلاحیت کو فروخت کر رہے ہیں ۔ان اذہان کو عرب حکمرانوں نے خریدا ہوتاتو آج سعودی تیل ریفائنری نظر آتش نہ ہوئی ہوتی ۔مگر قبلے کی نگہبانی کرنے والوں کو جب یہی نہیں پتہ کہ ان کی جدوجہد کا رخ کیا ہو یا ان کا قبلہ ہی درست نہیں تو طواف کعبہ اور کتابوں سے آراستہ کتب خانوں کا بھی کیا مطلب؟

عمر فراہی ۔ ای میل : umarfarrahi@gmail.com

اپنا تبصرہ لکھیں