زبان ایک تہذیب کو جنم دیتی ہے۔ اردو نے بھی ایک تہذیب کو جنم دیا

زندہ قومیں ہی معاشرے میں اپنی بقا اور ترویج کو برقرار رکھ سکتی ہیں۔
زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
رپورٹ :۔وسیم ساحل

علوم و فنون، نظریات اور اپنی ثقافتی اقداروں کو اجاگر کرکے ہی زندہ قومیں معاشرے میں اپنی بقا اور ترویج کو برقرار رکھ سکتی ہیں۔ تاریح بتاتی ہے کہ اقلیت میں رہنے والی ثقافت کبھی پروان نہیںچڑھتی۔ اپنی زبان، ثقافت اور ادب کو اجاگر کرنے والے ہی ہمارا اثاثہ ہیں۔ آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے زیر اھتمام ساتویں چار روزہ عالمی اردو کانفرنس منعقد کرکے ان ترجمان ملت نے بدلتے ہوئے منظر نامے میں اپنے عکس کے وجود کو برقرار رکھ کر تاریخی کارنامہ انجام دیا ۔زبان، ثقافت، ملت اور علوم و فنون کو ایک جلہ بخشی۔ چار روزہ عالمی اردو کانفرنس کی افتتاھی تقریب 16اکتوبر 2014، شام ساڑھے چھ بجے شروع ہوئی۔ اس عالمی کانفرنس میں اردو ادب اور زبان کی مجموعی صورت حال اور مسائل کے حوالے سے پر مغز مقالات، مشاعرہ، رقص، موسیقی اور بیاد رفتگان کا بھرپور انداز میں اہتمام کیا گیا تھا ۔ آرٹس کونسل کے اعزازی سیکریٹری سید محمد احمد شاہ نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہر زبان ایک تہذیب کو جنم دیتی ہے۔ اردو نے بھی ایک تہذیب کو جنم دیا ہے ۔یہ دلوں سے دلوں کا اور تہذیب سے تہذیب کا رشتہ ہے۔ میرے ذہن میں یہ سوال تھا کہ اتنی عظیم زبان اور اس کے ساتھ جڑی ہوئی تہذیب کی بقا اورترویج کے لئے برسوں مین کوئی مربوط کوشش کیوں نہیں کی گئی جب ہم نے کانفرنس کا آغاز کیا تو ہر پڑھا لکھا آدمی اس سے جڑتا چلا گیا اور آپ کی پذیرائی نے تو سارے عالم میں ڈنکے بجادئے۔ سات برس پہلے لگایا جانے والا پودا آج اتنا پھل دار درخت بن گیا ہے کہ اس کی شاخیں پورے ملک میں پھیل چکی ہیں دنیا بھر کے شعراء ، ادیب ،قلم کار، دانشوار ، اور اہل علم اس اردو کانفرنس مین اپنی شرکت کو باعث فخر سمجھتے ہیں۔ کلیدی مقرر انتظار حسین نے کہا کہ جب پہلی کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ کانفرنس تواتر کے ساتھ منقدہوتی رہی گی۔ اس عالمی اردو کانفرنس کے معاملے پر کراچی والوں نے کمال کر دکھایا ہے۔ ساکناں کراچی نے نامساعد حالت میں بھی علم و ادب کی شمع روشن کی ہوئی ہے۔ انتظار حسین نے کراچی کو دمشق سے تشبیہ دی اور اردو کو کالا باغ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ نہ تو اس ملک میں کالا باغ ڈیم بنے گا اور نہ ہی اردو سرکاری زبان قرار دی جائے گی۔ مولوی عبدالحق بابائے اردو کے متعلق بات کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ جب وہ پاکستان تشریف لائے تو ہندوستاں والے پریشان ہوگئے اور بولے کہ اب ان کی اردو کا کیا بنے گا تو لوگوں نے کہا کہ لتا منگیشکر موجود ہے اس لئے فکر کی کوئی بات نہیں ۔ انڈیا میں تو لتا منگیشکر ہے لیکن پاکستان میں اردو کا کیا بنے
گا۔ اس سوال کا جواب معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی نے اپنے مخصواص انداز میں کچھ اس طرح سے دیتے ہوئے کہا کہ جب تک پانچ پانچ بچے پیدا ہوتے رہیں گے اردو زبان کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں۔ رضا علی عابدی نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ایک احمد شاہ نے میر کانگر اجاڑہ تھا اور ایک احمد شاہ نے میر کانگر آباد کیا۔ میں اس کانفرنس سے علم بٹور کر لے جارہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ یگانہ چنگیزی اور
احمد شاہ میں ایک بات مشترک ہے یعنی دونوں دیوانے ہیں اور دیوانگی کے بغیر کسی برے کام کی تکمیل نہیں ہوسکتی اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے چلڈرن بک ٹرسٹ کے قیام پر بھی زور دیا۔ عبید صدیقی نے ناصر کاظمی کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ بیسوی صدی کا نصف آخر ناصر کاظمی کا ہے جس میں انہوں نے اردو غزل کو فارسی کے اثرات سے نجات دلوائی۔ اطہر عباس نے بھی اپنی موجودگی کا احساس ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ اکبر بگٹی جن دنوں اردو سے ناراض اور بائیکاٹ کیا ہوا تھا تو ہم نے انہیں مشاعرے میںآنے کی دعوت دے دی ۔انہوں نے مشاعرے میں شرکت کی اور رات گئے تک شعر سنتے رہے۔ جاتے ہوئے کہا کہ میں اردو سے ناراض نہیں ہوں۔ میری ناراضگی کا سبب ضیاالحق تھا میں نے کہا تھا کہ جب تک ضیاء الحق موجود ہے میں اردو نہیں بولوں گا اور ساتھ ہی انہوں نے کوئٹہ میں مشاعرہ کرنے کی دعوت دے دی اور کہا کہ آپ مشاعرہ کی تیاری کر یں میں تمام انتظامات کروں گا۔ بھارت سے آئے ہوئے معروف ادیب اور دانشور ڈاکٹر انیس اشفاق نے کہا کہ ترقی پسند تحریک نے لکھنے والوں کو بصیرت عطا کی اور پڑھنے والوں کو ایک نیا انداز فکر دیا۔انہوں نے احمد شاہ کی تنظیمی صلاحیتوں کو سہرایا اور کہا کہ میں نے کسی ادبی محفل میں اتنے لوگ نہیں دیکھے۔ سید مظہر جمیل نے کہا کہ میرے نزدیک ترقی پسند ایک طرز حیات کا نام ہے۔ گلو بالا ئزیشن کے زیر اثر جتنے بھی افسانے لکھے گئے ان میں ترقی پسند فکر نمایاں ہے۔ ہمارے لکھنے والوں نے اکیسویں صدی کا چیلنج قبول کیا اور یہی ترقی پسند تحریک کی کامیابی ہے ۔ علیگڑہ کی تحریک، ترقی پسند تحریک کی تو سعی شکل ہے۔ یہ تحریک کبھی جمود کا شکار نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر قاضی افضال حسین نے کہا کہ زبان انسان کی خلقی ضرورت ہے۔ زبان کا زبان سے دوسطحو ں کا تعلق ہے۔ ایک خلقی اور دوسرا معاشرتی۔ بر صغیر میں اردو زبان کل بھی موجود تھی اور آج بھی ترسلی صلاحیت کی بنا پر پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے۔ ترسیلی طور پر قائم ہونے والی اردو زبان خلقی طور پر پائی جاتی ہے۔ہما ری زبان میں ہمیشیہ ارتقاء ہوتا رہتا ہے اس کے باوجود میں سوچتا ہوں کہ جب مشاق احمد یوسفی ہم میں نہیں ہونگے توہم کس طرح زندگی رہیں گے۔ نذیر لغاری نے بھی اپنی گفتگو کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا کے ہم نے لفظ کو سمجھنے کا معاملہ قاری،ناظر اورسامع پر چھوڑ دیا ہے۔ میڈیا میں آنے والے تاریخ سے اس حد تک نا بلد ہیں کہ اس شہر میں جوش اورغالب کے انٹرویو کرنا چاہتے ہیں۔امر جلیل نے اپنے خیالات کا اظہاران الفاظوں سے کیا اردو زبان پر آل انڈیا مسلم لیگ نے قاری ضرب لگائی اور اسے برصغیر کی تقسیم کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور اس کو مسلمانوں کی زبان بنا دیا۔ حالانکہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔رضا علی عابدی نے مزید کہا کے لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کونسی زبان بولتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ میں اماں کی زبان بولتا ہوں۔ غالب بھی گفتگو کی زبان میں خطوط لکھتے تھے میں ان کو اپنا امام مانتا ہوں ۔
کانفرنس میں کئی کتابوں کا اجراء بھی ہوا لیکن کامیاب تقریب مشتاق احمد یوسفی کی کتاب شعر یاراں کی تقریب رونمائی تھی۔ یوسفی صاحب کی یہ پانچویں کتاب ہے جو لگ بھگ 25 برس کے بعد سامنے آئی ہے ۔ اس سے پہلے ان کی چار کتابیں
“ذرگزشت ،آب گم ، چراغ تلے، اور خاکم بدہن کو بھی مقبولیت حاصل ہوچکی ہے۔
دوران کانفرنس اور اختتام کانفرنس شرکاء محفل اورمہمانانِ گرامی نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے اعزازی سیکریٹری سید محمد احمد شاہ کے فعال کردار کو سہرایا اور کہا کے اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کا معیار احمد شاہ کی زیرِ سرپرستی
کافی بہتر ہوا ہے۔اس سے پہلے یہ ایک اجڑے چمن کی طرح تھا ۔اس سے پہلے بھی کافی معتبر شخصیات اس کی عہدیدار ارہ چکی ہیں لیکن بطور ایک ادارے کے طور پر دنیا ادب میں ایک خاص مقام اور پہچان دلانے میں جو جدوجہد اور کاوشیں احمد شاہ نے کی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔کانفرنس میں شریک تمام شعراء ادیب ،دانشور ،اہل علم ، اہل قلم نے احمد شاہ کی خداداد صلاحیتوں اور ان کی ٹیم کی کامیاب کانفرنس کے انقاد پر مبارکباد پیش کی ۔
کانفرنس میں لوگوں کا ذوق و شوق دیدنی تھا۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے دنیائے ادب میں اردو شعر ادب کی ترقی اور بقا کے لئے جو کام سرکاری اور ادبی اداروں کو کرنا چاہئے وہ کام اس ادارے نے سر انجام دیے ہیں۔ اجلاس میں پروفیسر سحر انصاری اور عقیل احمد فضا اعظمی کی خدمت میں “لائف اچیومینٹ ایوارڈ”پیش کیا گیا اور ساتھ ہی دونوں کو پچاس پچاس ہزار روپے دئے گئے۔ آرٹس کونسل کے صدر پروفیسر اعجاز احمد فاروقی نے کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ بڑی کا وشوں سے سجائی ہوئی یہ محفل جس نے چہروں پر مسکراہٹ اور مختصر وقفے کے لئے آپس میں مل بیٹھنے کا سامان مہیا کیا، اختتام کی جانب گازن ہے۔ اس محفل میں لوگوں کے مسکراتے چہرے اور باہم بیٹھا دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے۔ اس کانفرنس کا اختتام اس امید کے ساتھ کیا جارہا ہے کہ اس شجر کی لگائی ہوئی شاخیں جہاںتک جائیں گی وہاں وہاں ایسی ہی محفل ہونگی اور آنے والے علم و ادب کے پرستاروں کو ایک پلیٹ فارم دستیاب ہوگا جس کے ثمرات سے اہل علم اور اہل وطن فیضیاب ہوتے رہیں گے۔ نظم و ضبط اور شرکاء کی تعداد کے لحاظ سے یہ کانفرنس کافی کامیاب رہی۔ ظہرا نے اور عشائیے بھی کانفرنس کی کامیابی کے خاص جز رہے۔کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ پنڈال میں موجود تمام کرسیاں بھر گئی تھیں۔ دیر سے آنے والوں نے اجلاس کی کاروائی کھڑے ہو کر دیکھی۔ نیشنل بینک آف پاکستان کے تعاون سے کانفرنس میںمنقعدہ عالمی مشاعرہ اور کلاسیکی رقص موسیقی کا پروگرام جس میں شیما کرمانی اور ان کے گروپ نے اپنے فن کاشاندار مظاہرہ کیا ۔شائقین کی بڑی تعداد نے پسندیدگی کا اظہار کیا۔
خوبیوں کے ساتھ ساتھ جن مقاصد اور عزائم کے ساتھ اس عالمی اردو کانفرنس کا آغاز کیا گیا ہے اگر نوجوانوں اور بچوں کے ادب کی طرف بھی توجہ دی جائے تو کانفرنس میں مزید چار چاند لگ سکتے ہیں اور آنے والے نوجوانوںکی ایک کھیپ تیار ہوسکتی ہے جو دنیائے ادب میں اردو ادب اور علوم و فنون کی بقا اور ترویج و ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کر سکیںگے۔

اپنا تبصرہ لکھیں